مصالحہ کہانی 2
تحریر : سید شایان
٭ برِصغیر پاک و ہند کا علاقہ انڈیا تقسیم سے قبل اپنی ہلدی، سیاہ مرچ ، دارچینی، سبز الائچی اور چاۓ کی پیداور کی وجہ سے سونے کی چڑیا کہلاتا تھا
٭ ہندوستان کے مصالحوں پر قبضے کے لئے پرتگیز (Portuguese)اور ولندیزیوں (Dutch) میں جو جنگ ہوئی وہ war for spices کہلاتی ہے
٭ سب سے پہلے عرب پھر پُرتگیزی پھر ڈچ پھر ا نگریز اور پھر فرانس نے ہندوستان کے مصالحوں کو حاصل کرنے کے لئے اس کے ساحلی علاقوں پر قبضہ کیا، ایسٹ انڈیا کمپنی بھی Spice Trade کے لئے ہی انڈیا آئی تھی
٭ آج دُنیا کے مصالحوں کی 75 فیصد ضروریات انڈیا پوری کر رہا ہے مگر دُنیا بھر میں پاکستانی مصالحہ برانڈ ‘شان مصالحے’ مقبولیت میں زیادہ آگے ہے۔
آج ہم جس آسانی سے پرچون دوکانوں سے مصالحے، پڑیوں اور پیکٹس میں خرید لیتے ہیں گُذرے کل میں یہ اتنا آسان نہ تھا مصالحے سونے چاندی کے بھاؤ بکتے تھے اور ان کو حاصل کرنے کے لئے دُنیا کی طاقتور قوموں میں کئی جنگیں بھی ہوئیں بالکل اس طرح جیسے آجکل تیل کے ذخائر پر قبضے کے لئے امریکہ اور یورپی اقوام نے عراق پر قبضہ کیا تو ان مصالحوں کو آپ اتنی سستی اور ارزاں چیز نہ سمجھئیے گا۔ یہ دُنیا میں جو آج گلوبل ٹریڈ ہو رہی ہے اسکا آغاز سپائس ٹریڈ سے ہی ہُوا تھا
میں جب کھانوں میں مصالحوں کے استعمال اور تناسب ، انکی کاشت اور انُکے تاریخی احوال کا مطالعہ کر رہا تھا تو اردو کا ایک محاورہ میرے ذہن میں بار بار آتا تھا کہ ‘غریب کی جورُو ، سب کی بھابھی’ مطلب اس کا یہ ہے کہ غریب یا کمزور کی کوئی زندگی نہیں جو بھی پیسے والا یا طاقتور جب چاہے، غریب کے حق پر ڈاکہ ڈال سکتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ہندوستان کی زمین کالی مرچ دارچینی سبز الائچی و دیگر مصالحوں ، چاۓ اور زعفران کی پیداوار میں بہت زرخیز تھی اور ہر مصالحہ یہاں وافر مقدار میں اُگتا تھا اور اسی وجہ سے اسے سونے کی چڑیا کہا جاتا تھا 712 میں عربوں نے اس سرزمین پر دیبل کی بندرگاہ پر ایک بیوہ عورت کی مدد کی پُکار کے بہانے قبضہ کیا اور پھر کئی صدیوں تک عرب اس زمین پر اگنے والی اجناس اور مصالحہ جات جہازوں میں بھر بھر کے اپنے ہاں لے جاتے رہے جس سے عربی کھانوں میں خصوصأ آگ پر تیار ہونے والے گوشت اور کبابوں میں جو ذائقہ اُٹھا اس نے خود اہل عرب کو بھی حیران کر دیا دُنیا میں سب سے پہلے کباب عرب کی سرزمین پر ہی بناۓ گئے تھے، لفظ کباب عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب آگ پر سیکنا ہے عربوں کو یہ علم تھا کہ جو کھانے،کباب اور گوشت کے پارچے وہ اور انکی فوج کھاتی ہے ، وہ بَن ہی نہیں سکتے اگر ان میں یہ مصالحے نہ ڈالے جائیں عرب تاجر اس وقت ہندوستان جا کر یہ مصالحےخرید کر لاتے تھے جو ان کی ضروریات سے بہت کم تھا چنانچہ ایک دن عربوں نے نظریۂ ضرورت کے تحت ہندوستان پر دھاوا بول دیا اور طاقت کے بل بوتے پر یہاں اگنے والے تمام مصالحے اور اجناس پر قبضہ کر کے اپنے ملک کی ضروریات نہ صرف پوری کرنا شروع کیں بلکہ مشرقِ وسطی کے ممالک ، بر اعظم افریقہ اور یورپ و اسپین تک ان کی تجارت بھی شروع کر دی
یوروپی ممالک بھی ان مصالحوں کے بڑے مداح تھے اور وہاں بھی ہر کھانے میں مصالحوں کا استعمال عربوں کی وجہ سے دن بدن بڑھتا جارہا تھا اس زمانے میں عربوں سے ٹکر لینا آسان نہ تھا وہ دُنیا بھر کو فتح کرتے جا رہے تھے جو آلاتِ حرب اور جنگی سامان ان کے پاس تھے وہ انگریزوں، یورپیین یا ہندوستان کے پاس ہونے کا تصور بھی نہیں تھا۔ ساتویں صدی سے لیکر بارویں صدی تک 600 سال صرف عربوں نے ہندوستان پر قبضے کا فائدہ اُٹھایا اور پوری دنیا میں اس کے مصالحوں جڑی بوٹیوں اور اجناس کی تجارت کر کے بے پناہ دولت کمائی اندازہ لگائیے یورپین کو یہ بھی پتہ نہ تھا کہ جو مصالحے ان کے کھانوں کو اتنا محفوظ اور ذائقے دار بناۓ ہوۓ ہیں وہ انڈیا سے آتے ہیں اور عرب تاجر اصل بات انگریزوں سے چُھپاتے تھے کہ یہ مصالحے وہ کہاں سے لاتے ہیں لیکن چودہویں صدی کے آخر میں پُرتگیزی اور اسپین قوم جب عربوں کے مقابے میں طاقتور ہوۓ اور اپنے علافے سے انہوں نے قابض عربوں کو دھکیلا تو انہیں پتہ چلا کہ عربوں کی تجارت میں کامیابی کی کُنجی جو سپائسز ہیں یہ ہندوستان نامی ایک ملک سے آتی ہیں مگر کسی کو یہ پتہ نہ تھا کہ ہندوستان ہے کہاں ؟ اور اب یہ دونوں مُلک ہندوستان پر قبضہ کر کے ان مصالحوں کی دُنیا میں تجارت کا خواب دیکھ رہے تھے لیکن ان دونوں میں کسی کو ہندوستان کا بحری راستہ معلوم نہ تھا چنانچہ پرتگال سے واسکو ڈے گاما اور سپین سے کسٹوفر کولمبس نے یہ مہمُ جوئی شروع کی۔ کولمبس انڈیا ڈھونڈتے ڈھونڈتے غلطی سے کسی اور جزیرے میں جا نکلا اور اُس جزیرے کے مقامی رہائشی ریڈ انڈین کو انڈین سمجھ کر اُس نے اپنے مُلک کے بادشاہ کو یہ پیغام بھیجا کہ اس نے ہندوستان دریافت کر لیا ہے (سنۂ 1492) حالانکہ وہ امریکہ دریافت کر بیٹھا تھا۔(چنانچہ دیکھا جاۓ تو امریکہ کی دریافت بھی ان سپائسز کی مرہونِ منت ہے ) واسکو ڈے گاما اپنی اس لمبی مہم میں کامیاب رہا اور ایک افریقی مسلمان ملاح کو یرغمال بنا کر زبردستی ہندوستان تک لے گیا اور یوں وہاں کا راستہ معلوم کر لیا اور ممبئی کے ساحلی علاقے مالا بار تک پہنچنےمیں کامیاب ہو گیا (سنہ 1497) واسکوڈےگاما کے کہنے پر پُرتگالیوں نے باقائدہ ہندوستان پر فوج کشی کی اور اس ُملک کے ایک بڑے ساحلی علاقے پر جو گجرات سے کیرالا تک پھیلا تھا، قبضہ کر لیا (سنۂ 1498) جبکہ ہندوستان کے باقی اندرونی علاقے پر اسوقت افغانستان کے لودھی خاندان نے قبضہ کیا ہوا تھا لودھیوں سے مغلوں نے اقتدار حاصل کر لیا (سنۂ 1525) افغانوں اور مغلوں کو سمندری پانیوں ، ساحلوں سے کوئی دلچسپی نہ تھی اور وہ اندرون ہندوستان میں حکومت بنا کر بیٹھے رہے سولہویں صدی میں ولندیزیوں نے بھی ایک ساحلی پٹی پر قبضہ جما لیا برطانیہ نے بھی اسی صدی میں ایسٹ انڈیا کمپنی بنا کر شہنشہاہ جھانگیر سے ایک معاہدے کے تحت بنگال کے ساحلی علاقوں پر اپنا اثر و رسوخ قائم کر کے مصالحوں spices کی تجارت شروع کی پھر 1663 میں فرانسیی بھی یہاں آ گئے اور ایک حصے پر انہوں نے بھی قبضہ کر لیا سو بےچارے بھارت کے مقامی لوگ اتنے بے بس تھے کہ جس مُلک کو موقعہ ملتا وہ طاقت کے زور پر یہاں آتا اور مقامی آبادی کو اپنا غُلام بنا کر اپنے مطلب کی تجارت شروع کر دیتا پرتگیزیوں نے ہندوستان سے مصالحوں سے بھرے جہازوں کے جہاز یورپ بھجواۓ اور وہاں کے ٹماٹر آلو اور لال مرچ یورپی تاجر ہندوستان لاۓ اور یہاں کے لوگوں کو ان کا ذائقوں کا عادی بنا دیا
ایک زمانے میں یہ مصالحے سونے اور چاندی سے بھی زیادہ مہنگے دام فروخت ہوتے تھے اور تجارت میں کالی مرچ ، لونگ اور دارچینی کو کرنسی کو درجہ حاصل تھا پہلے عربی پھر یورپی تاجر اپنے مُلک سے قیمتی اشیأ لاتے اور بدلے میں سیاہ مرڇ، دارچینی، ہلدی، الائچی لونگ اور دیگر مصالحے یہاں سے لے جاتے تھے
آپ اس مضون سے یہ نتیجہ اخذ نہ کر لیجئے گا کہ تمام مصالحوں کی سر زمین انڈیا ہی ہے اور ہر سپائس سب سے پہلے اسی ملک میں پیدا ہوئی اسلئے یہ وضاحت ضروری ہے کہ آج گرچہ دُنیا کی ہر قسم کی سپائس پاکستان یا ہندوستان میں اُگائی جا رہی ہے لیکن سب مصالحوں کا مسکن صرف ایک مُلک انڈیا نہیں رہا
جیسے ہلدی، تُلسی (basil) سیاہ مرچ، الائچی ہندوستان کی زمین میں پیدا ہوتے تھے زیرہ مِصر اور دیگر افریقی ملکوں کی سپائس تھا لونگ انڈونیشیا سے آئی دھنیا اور تیز پات قدیم یونان اور روم (آج کے اٹلی) میں پیدا ہوتے تھے بادیان (anise) مشرق وسطی کی سپائس تھی لال مرچ آج کے سنٹرل اور ساؤتھ امریکی ممالک بولیویا اور میکسیکو میں پیدا ہوئی لیکن پرتگیزیوں نے امریکہ کی دریافت کے بعد اسے انڈیا میں متعارف کروایا
آج کی صدی میں مصالحے اب صرف ہمارے کچن تک محدود نہیں رہے بلکہ ان کی گُونا گُوں افادیت اور خصوصیات کی وجہ سے انہیں صحتِ عامہ کے لئے بےشمار فارما سوٹیکل کمپنیاں اپنی ادویات میں استعمال کر رہی ہیں اور جلداور چہرے کی خوبصورتی کے لئے نامور کاسمیٹکس کمپنیاں اپنی پراڈکٹس میں ان spices کے استعمال کا پتہ دے رہی ہیں ۔
کباب خانہ کے لئے یہ مضمون سید شایان نے تحریر کیا۔
سید شایان پیشے کے اعتبار سے بزنس مین ہیں اور لاہور پاکستان کے علاقے مین گلبرگ میں اپنی بزنس فرمز چلاتے ہیں کھانا پکانے کے شوقین، ماہرِ آشیز اور کھانوں کے تاریخ نویس ہیں. ان کی ایک فرم جو کباب خانہ بلاگ اور ویب سائٹ چلاتی ہے فائیو سٹارز ہوٹلز اور بڑے بار بی کیو ریسٹورنٹس کے لئے فوڈ کنسلٹنسی مہیا کرتی ہے اور مختلف food events پر کام کر رہی ہے سید شایان کھانوں سے جُڑی اشیأ جیسے مصالحے ، گوشت ، سبزی ، پھل ، ڈیریز اور گھی و آئل کے استعمال کو خوب جانتے اور سمجھتے ہیں اور آجکل کباب خانہ بلاگ اور ویب سائٹ کے لئے کھانوں کی ایک سیریز لکھ رہے ہیں
Views:248
Post a Comment
Comments