زعفران - تہذیبِ گم گشتہ کے قیمتی کھانوں کی ایک جنسِ نایاب
تحریر: سید شایان
زعفران سے میرا عشق سالوں پُرانا ہے میں نے بچپن میں اپنی والدہ سے یہ لفظ پہلی مرتبہ سنُا تھا جب انہوں نے گھر میں ایک مرتبہ فیرنی بنائی تھی۔۔ میں اسکول سے گھر آیا تو ہمارے ڈرائنگ روم کی میز پر چھوٹی بڑی طشتریاں قطار اندر قطار لگی ہوئی تھیں اور ان میں فیرنی جمی ہوئی تھی جگمگ جگمگ کرتے چاندی کے ورق اور لمبے رُخ باریک کٹے بادام اور پستوں کو انتہائی خوبصورتی اور نزاکت سے سفید فیرنی پر سجایا گیا تھا اور بڑی چھوٹی الائچیوں اور کیوڑے کی انتہائی مدھم مہک ان طشتریوں سے یوں اُٹھ رہی تھی کہ اس ماحول نے مجھے مبہوت کر دیا اور میں وہیں کھڑا ان چھوٹی بڑی طشتریوں اور بڑے خوان کو للچائی نظروں سے دیکھتا رہا جن میں فیرنی جمائی گئی تھی میرا بس نہیں چلتا تھا کہ ساری فیرنی میں اکیلا کھا جاؤں دراصل فنِ آشیزی اور کھانوں کی سجاوٹ کا فن اس دن پہلی مرتبہ لاشعوری طور پر میرے اندر سرایت کر گیا تھا جب میں نے سپید فیرنی کی طشت کو اس خوبصورتی سے سجے دیکھا تھا میں للچائی نظروں سے انہیں دیکھ رہا تھا کہ امی نے کروشیا سے بُنے سفید غلاف سے اُن طشتریوں کو ڈھانپنا شروع کر دیا تو میں نے امی کا ہاتھ پکڑ لیا امی سمجھ گئیں اور مجھے ایک طشتری لے لینے کو کہا میں نے بے ساختہ ایک طشتری اُٹھائی اور انگلی ہی سے اسے کھانا شروع کر دیا مجھے لگا کہ میں نے اگر فیرنی فوری نہ کھائی تو امی مجھ سے طشت واپس لے لیں گی امی نے مجھے اس طرح ندیدوں کی طرح فیرنی کھاتے دیکھا تو برہم ہوئیں اور میز کے ایک کونے پر رکھی چمچوں کی ٹرے کی طرف اشارہ کیا میں نے ایک بڑا چاول کھانے والا چمچ لیا اور فیرنی کھانی شروع کی تو امی نے جھپٹ کر وہ ٹیبل سپُون میرے ہاتھ سے چھینا اور شیرینی کھانے والی چھوٹی چمچ مجھے تھما دی کہ مٹھاس چھوٹی چمچ سے کھاتے ہیں۔۔۔
بات مجھے زعفران کی کرنی تھی اور میں اپنے بچپن کا قصہ لے بیٹھا ہوں۔ زعفران سے جُڑی یہ بات اسلئے ذہن میں آئی کہ مجھے امی نے بتایا تھا کہ اگر فیرنی میں زعفران ڈال دیا جاۓ تو اس کی مہک اور سوندھے پن میں اور اضافہ ہو جاتا ہے اور اس کی رنگت بھی پھر سفید نہیں کیسری ہو جاتی ہے۔
لیکن زعفران آۓ کہاں سے ؟ امی نے شاید خود سے سوال کیا. اس زمانے میں ہم بہاولپور میں رہتے تھے اور وہ میرے ابتدائی بچپن کے دن تھے میں نے امی کی بات سے ذہن میں یہ تاثر لیا کہ زعفران کوئی بہت نایاب قسم کی جڑی بُوٹی ہے اور شاز و نادر ہی کسی کو نصیب ہوتی ہے اور شاید یہ عام آدمی کی پہنچ میں بھی نہیں ہے بڑا ہونے پر جب آس پاس کی اشیا کو سمجھنے کا شعور پیدا ہوا تو میں نے جانا کہ زعفران واقعی دُنیا کی تین قیمتی ترین spices ( مصالحوں ) میں سے ایک ہےالبتہ یہ جڑی بُوٹی نہیں ہے آج بھی پاکستان میں کم ہی ایسا ہو گا کہ کسی پنسار کی دوکان پر آپ کو خالص زعفران مل سکے اور اگر ملے گا تو اسقدر مہنگا کہ عام آدمی تو دور کی بات ہے اچھے صاحب ِ حیثیت افراد بھی سوچ سمجھ کر اس کا استعمال کرتے ہیں ہم جو اپنی بریانی یا زردے میں پیلے رنگ کا استعمال کرتے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ مُغل تہذیب میں شاہی استعمال کے لئے بننے والی بریانی اور زردے میں خوشبو ذائقے اور کیسری رنگت کے لئے زعفران ایک لازمی جُزو تھا لیکن اس وقت بھی عام گھرانوں میں زعفران جیسی قیمتی نایاب جنس کا استعمال کم تھا کہ ایک تولہ زعفران کی قیمت ایک تولہ سونے سے بھی زیادہ تھی چنانچہ اس کا حل سستے زردی رنگ میں ڈھونڈا گیا تاکہ بریانی دو رنگی اور زردہ کیسری رنگ میں تیار ہو کر آپ کی نظروں اور دل کو لُبھا سکے۔ آج بھی پاکستان میں انڈیا یا ایران کے مقابلے میں زعفران بہت مہنگے دام فروخت ہوتا ہے ایک گرام زعفران کی قیمت دو ہزار روپے ہے یا یوں سمجھیں کہ دو لاکھ روپے کلو-
ایران کے چلُو کباب تو آپ نے پاکستان میں یا باہر کے کسی مُلک میں کھائیں ہوں گے ان کبابوں کے ساتھ جو زعفرانی چاول ساتھ میں سَرو ہوتے ہیں دراصل وہی ان کبابوں کی اصل شان ہیں ان چاولوں اور کبابوں میں زعفران کا استعمال ایرانی تہذیب میں لازمی جُزو ہے
دیکھنے میں زعفران سُرخ رنگ کے لمبے لمبے ریشوں یا دھاگوں جیسا ہوتا ہے اور اسی وجہ سے اسے سُرخ سونا بھی کہتے ہیں لیکن جب ہم اسے دودھ یا پانی میں ملاتے ہیں تو اس کی رنگت کیسری یا ہلکے پیلے بسنتی رنگ جیسی ہو جاتی ہے اصلی زعفران کو پرکھنے کا سب سے آسان طریقہ بھی یہی ہے کہ زعفران کے ایک ریشے یا دھاگے کو سفید کاغذ پر رکھ کر اس کے اوپر چند قطرے پانی یا دودھ کے گرائیں اگر وہ قطرے کیسری یا ہلکے پیلے رنگ کے ہو جائیں تو زعفران اصلی ہے اگر قطرے لال ہو جائیں تو زعفران نقلی ہے اور اسے سُرخ رنگ دیا گیا ہے
زعفران (saffron)کو انڈیا اور کشمیر میں کیسر بھی کہتے ہیں ہلکا پیلا بسنتی رنگ ہماری رومانی داستانوں اور گیتوں میں بھی ایک استعارہ کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ ‘کیسریا بالم، پدھارو مارے دیس’ ۔۔ جنگجو راجپوت سپاہی کے لئے اس کی محبوب کا گایا راجستھانی گیت ہم میں سے کس نے نہ سُنا ہو گا۔
گرچہ زعفران کھانوں میں ذائقہ خوشبو اور رنگت دینے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے لیکن اس کا استعمال عام کھانوں میں اسلئے بہت محدود ہے کہ یہ دُنیا کے قیمتی ترین مصالحوں میں سے ایک ہے یہ جس اُودے یا جامنی رنگ کے پھول سے حاصل ہوتا ہے اس میں دو یا تین سُرخ رنگ کے ڈنٹھل یا ریشے لگے ہوتے ہیں جن کو سٹگما کہتے ہیں اور یہی دراصل زعفران ہے 30 ہزار سے 50 ہزار پھولوں کو اگر چُنا جاۓ تو 200 گرام خالص زعفران حاصل ہوتا ہے اور یہ پھول اتنا نازک ہوتا ہے کہ اپنے کِھلنے سے لیکر مرجھانے تک اس کی عمر تین سے چار دن ہوتی ہے اسلئے بہت توجہ اور احتیاط سے ان کے مرجھانے سے پہلے ہی ان پھولوں سے زعفران چن لیا جاتا ہے بازار میں اسی لئے یہ جنس نایاب ہے اور بہت کم جگہوں سے آپ کو اصلی زعفران مل سکتا ہے مجھے بھی بہت تلاش کے بعد لاہور کی پاپڑ منڈی میں ایک پنساری کی دوکان ملی جہاں سے میں خالص زعفران حاصل کرنے میں کامیاب ہُوا پاکستان میں ایک گرام زعفران کی قیمت آجکل دو ہزار روپے ہے
زعفران کا استعمال کھانوں کے علاوہ چہرے کی رنگت اور جلد کی حفاظت کے لئے زمانۂ قدیم سے ہو رہا ہے اب تو بے شمار کاسمیٹکس کمپنیاں اپنی مخصوص پراڈکٹس میں اس کا استعمال عام کر رہی ہیں
زعفران کی سب سے زیادہ پیداوار ایران میں ہوتی ہے اور دُنیا کی ضرورت کا نوے فیصد زعفران ایران کے پاس ہے دوسرے نمبر پر انڈین کشمیر اس کی ہیداوار کا بڑا مرکز ہے اگر پاکستان کا کسان چاہے تو اپنی زمین میں زعفران کی کاشت کا تجربہ کرے ہو سکتا ہے یہ تجربہ کامیاب ہو جاۓ
کیونکہ زعفران اُگانے کے لئے خُشک ریتلی زمین جہاں پانی کم مقدار میں دستیاب ہو آئیڈیل سمجھی جاتی ہے میں نے اپنے ایک چھوٹے زرعی فارم پر تجربے کے لئےاس کے چند پودے لگاۓ ہیں مجھے یقین ہے جلد اس میں پھول نکلیں گے
اقبال کا یک شعر ہے
پُھول ہیں صحرا میں یا پریاں قطار اندر قطار
اُودے اُودے، نیلے نیلے، پیلے پیلے پیرہن
مجھے یقین ہے کہ علامہ نے کسی زعفران کے کھیت میں اس کے پھولوں کو کِھلے دیکھ کر یہ شعر کہا ہو گا
کباب خانہ کے لئے یہ مضمون سید شایان نے تحریر کیا۔
سید شایان پیشے کے اعتبار سے بزنس مین ہیں اور لاہور پاکستان کے علاقے مین گلبرگ میں اپنی بزنس فرمز چلاتے ہیں کھانا پکانے کے شوقین، ماہرِ آشیز اور کھانوں کے تاریخ نویس ہیں. ان کی ایک فرم جو کباب خانہ بلاگ اور ویب سائٹ چلاتی ہے فائیو سٹارز ہوٹلز اور بڑے بار بی کیو ریسٹورنٹس کے لئے فوڈ کنسلٹنسی مہیا کرتی ہے اور مختلف food events پر کام کر رہی ہے سید شایان کھانوں سے جُڑی اشیأ جیسے مصالحے ، گوشت ، سبزی ، پھل ، ڈیریز اور گھی و آئل کے استعمال کو خوب جانتے اور سمجھتے ہیں اور آجکل کباب خانہ بلاگ اور ویب سائٹ کے لئے کھانوں کی ایک سیریز لکھ رہے ہیں
Views:615
Post a Comment
Comments
Khan
Shandar
Like Reply 2 years ago