پلّہ مچھلی کے خستہ اور لذیذ سیخ کباب ہوں یا پلّہ پُلاؤ یا پلّہ سالن ، ان کے لئےجس چیز کی سب سے پہلے آپ کو ضرورت پڑے گی وہ ہے پلّہ مچھلی
تحریر : سید شایان
پلّہ مچھلی : یہ ایک ایسی نرالی مچھلی ہے جو رہتی تو سمندروں کے نمکین پانیوں میں ہے مگر بچّے دینے دریاۓ سندھ کے میٹھے پانی میں آتی ہے کیونکہ اس کے انڈے سمندر کے کھارے پانی میں زندہ نہیں رہتے اسلئے افزائش نسل اس کی میٹھے پانی میں ہوتی ہے یہ انتہائی نازک اور بڑی باہمت مچھلی ہے نازک اور نزاکت ایسی کہ اگر اسے کوئی انسانی ہاتھ چھو بھی لے تو یہ دم توڑ دیتی ہے انسانی ہاتھ تو بہت دور کی بات ہے اگر مچھلیوں کو پکڑنے والا ماہی گیروں کا جالا اس سے ٹکرا کر گزر بھی جاۓ تو اس کی نزاکت کو یہ بھی برداشت نہیں ، اسی وقت جان دے دیتی ہے ایک پودے کا آپ نے نام سُنا ہو گا چھوئی موئی کا پودا، اس پودے کے بارے میں مشہور ہے ادھر اس کو کسی نے چھوا اور ادھر وہ مُرجھا گیا اور اسی لئے اس کا نام چُھوئی مُوئی پڑ گیا پلّا مچھلی بھی بس سمجھ لیجئے نزاکت کے حساب سے چُھوئی مُوئی ہے اور ہمت کی بات یہ ، کہ وہ بچے ( انڈے) دینے کے لئیے نیچے سمندر (بحیرہ عرب) سے اُوپر دریا تک پانی کی مخالف سمت میں مُسلسل کئی مہینے بہتے ہوئے اپنا راستہ بناتی ہے اور ڈیڑھ ہزار کلومیٹر سے زیادہ کا سفر طے کر کے دریاۓ سندھ کے میٹھے تازہ پانیوں تک پہنچنے میں کامیاب ہو جاتی ہے اور تب وہاں پہنچ کر انڈے دیتی ہے اور انتہائی مشقت اُٹھا کر اپنی نسل کے لئے آرام اور راحت کا سامان فراہم کرتی ہے اور پھر انڈے دیکر اگلے سال تک کے لئے واپس سمندر کی طرف لوٹ جاتی ہے (میں اس مضمون میں ایک دو تصویر لگا رہا ہوں کہ بحیرہ عرب سے دریاۓ سندھ تک کا سفر پلّہ مچھلی کیسے طے کرتی ہے)
یہاں میں ایک دلچسپ بات کا ذکر کرنا چاہونگا کہ پلہ سمندر سے یکدم دریا میں نہیں کود جاتی ایسا کرنا تو اس کے لئے خودکشی ہو گا کیونکہ سمندر کے نمکین پانی کی وجہ سے اس کے گردوں کا فنکشن اور طرح کا ہوتا ہے اور اس کے گردے نمکین پانی کو بھر نے اور باہر نکالنے کے عادی ہوتے ہیں اور ایک نمکینیت کے مطابق کام کر رہے ہوتے ہیں اب جب یکایک میٹھا پانی ان میں جائیگا تو وہ اس کے عادی نہیں ہونگے اور اپنا فنکشن چھوڑ دیں گے اور ناکارہ ہو جائیں گے چنانچہ قدرت کا نظام ایسا ہے کہ سمندر اور دریا کے درمیان کا جو درمیانہ علاقہ ہوتا ہے اسے کھاڑی (estuary) کہتے ہیں اس درمیانی علاقے کا پانی ہلکا نمکین ہوتا ہے یعنی اس میں دریا کا میٹھا اور سمندری نمیکن پانی دونوں کی آمیزش ہوتی ہے۔ پلّہ سمندر سے دریا میں داخل ہوتے وقت یا واپس دریا سے سمندر جانے کے لئے کئی ہفتے اسی کھاڑی میں قیام کرتی ہے تاکہ اس کے گردے نئے پانی کی نمکیات کے مطابق فعال ہو سکیں
ایسی مچھلیاں جو اپنی زندگی کا تمام حصہ سمندر میں گزاریں لیکن انڈے دینے (spawning)کے لئے دریا کے فریش پانی میں آ جائیں انہیں anadromous فش کہا جاتا ہے سامن (salmon) بھی anadromous خاندان کی مچھلی ہے
لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ ہمارے ماہی گیروں نے ان کھاڑیوں میں مچھلی پکڑنے کا کام شروع کیا ہوا ہے جو کسی بھی لحاظ سے ethical نہیں ہے جو مچھلی سینکڑوں میل کا سفر طے کر کے اپنی افزائش نسل کے لئے یہاں تک پہنچی ہے آپ اسے دریا میں جانے بھی نہ دیں اور دبوچ کر کھا جائیں یا وہ معصوم بچے جو ذرا بڑے ہو کر دریا سے سمندر میں جا رہے ہیں ان کا آپ اس کم عمری میں شکار کر لیں ۔ یہ انسان ہونے کے ناطے آپ کو زیب دیتا ہے
میں سختی سے اس وحشی اقدام کی مذمت کرتا ہوں
ایک زمانہ تھا کہ دریاۓ سندھ کے کسی بھی مقام پر جا کر پلّہ مچھلی آسانی سے کھائی جا سکتی تھی لیکن مسلسل پانی کی کمی اور دریا پر تین بیراجوں گُدو، کوٹری اور سکھر کی تعمیر کی وجہ سے پلّہ مچھلی کی افزائش کو نقصان ہوا پھر مچھلی پکڑنے کے لوہے کے تاروں والے جالوں کے استعمال نے اس دریا سے پلہ مچھلی کو ہم سے بہت دور کر دیا ہے
ماہی گیروں کے لئے پاکستان میں کام کرنے والی ایک تنظیم پاکستان فشرفورک فورم کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ آج سے تین دہائی پہلے دریاۓ سندھ میں
پلّہ کی سالانہ کیچ 18 ہزار ٹن تھی جو اب کم ہو کر 100 ٹن رہ گئی ہے یہ اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ ہماری آئندہ نسل کو پلّہ مچھلی کا شاید علم بھی نہ ھو گا
مجھے یاد ہے کہ میرے بچپن میں لاہور سے ہم پلہ مچھلی خرید لیتے تھے کہ یہ مچھلی سندھ کے علاوہ پنجاب کے ایک دو دریا تک سفر کرتے ہوۓ پہنچ جاتی تھی لیکن اب تو دریاۓ سندھ میں بھی یہ مچھلی صرف سیلاب کے وقتوں میں نظر آتی ہے جب پانی کا بے پناہ بہاؤ دریا میں آتا ہے تو پھر پلہ بھی آتی ہے
پلّہ مچھلی ذائقے میں جتنی لذیذ ہے اپنی خوبصورتی میں بھی اس کا کوئی ثانی نہیں سفید چاندی کی رنگت اور حسِین سراپا والی پلہ مچھلی کو پانی میں بہتے دیکھ کر لگتا ہے کہ جیسے سمندر میں چاند گُھل گیا ہے اور پانی میں پلّہ نہیں چاند کی چاندنی بہہ رہی ہو اسی خوبصورتی کی وجہ سے میں پلّہ مچھلی کو دریاۓ سندھ کی ملکہ سمجھتا ہوں
یہ سندھی کھانوں اور ثقافت کا لازمی جزو ہے یہاں کے مقامی باشندے خوشی کے موقع پر اسے ایک دوسرے کو تحائف میں بھیجتے ہیں شہید وزیراعظم بے نظیر بھٹو سندھ میں پیدا ہوئی تھیں اور نسلاً سندھی تھیں بے نظیر کو کھانے میں پلہ مچھلی بہت پسند تھی اپنے 1996 کے ایک جاپانی دورے میں جب جاپانی شہنشاہ نے ان کے اعزاز میں ضیافت کا اہتمام کیا تو اس میں جاپانی فش سے بنی ایک ڈش انہیں پیش کی گئی بے نظیر بھٹو کو وہ ڈش بہت پسند آئی لیکن وہیں انُکے دل میں پلّا کی محبت بھی جاگ اُٹھی اور انہوں نے پلہ مچھلی کا بطور خاص اس محفل میں ایسے ذکر کیا کہ جاپانی شہنشاہ نے بھی پلّہ کھانے کی فرمائش کر دی جس پر وزیر اعظم نے وعدہ کیا کہ پاکستان جاتے ہی انہیں پلّہ بھجوائیں گی مگر جتنی مرتبہ بھی یہ مچھلی زندہ پاکستان سے جاپان بھجوانے کی کوشش کی گئی وہ راستے ہی میں مر گئی میں نے اس مضمون کے شروع میں کہا تھاکہ پلّہ مچھلی بہت نازک مچھلی ہے یہ تو ہاتھ لگانے یا جال کے چُھو جانے پر دم دے دیتی ہے چہ جائیکہ اسے آپ پانی کے کنٹینر میں ڈال کر بذریعہ جہاز دوسرے ملک بھیجیں چنانچہ یہی ہُوا کہ زندہ مچھلی نہ پہنچنے کی وجہ سے جاپانی شہنشاہ اسے کھانے سے محروم رہ گئے
یہ بات اکثر پوچھی جاتی ہے کہ آخر پلہ مچھلی میں ایسی کیا بات ہے جو اسے ارد گرد کی دوسری مچھلیوں سے ممتاز کرتی ہے تو اس کا جواب بہت واضح ہے کہ پلہ مچھلی کی خوراک پانی کی تہہ میں پڑی مٹی کی گاد اور نباتات ہیں جو یہ کھاتی ہے اس سے اس کے جسم میں ایک سوندھا پن پیدا ہو جاتا ہے
جیسے بارش کے بعد آپُکو زمین اور پودوں سے سوندھی سوندھی خوشبو آنا شروع ہو جاتی ہے وہی مٹی اور پودوں کی خوشبو اس مچھلی کے جسم سے بھی آتی ہے
اس کا اومیگا تھری اور فیٹی ایسڈ اول درجے کا ہوتا ہے
یہ واحد مچھلی ہے اس کے جسم کا ہر حصہ سر سے لیکر دُم تک کھایا جاتا ہے یہ اتنی نرم اور خستہ ہوتی ہے کہ اسے پکاتے وقت بھی انتہائی احتیاط کی ضروت ہوتی ہے ورنہ یہ جگہ جگہ سے ٹوٹ جاتی ہے اس مچھلی میں بہت باریک کانٹے بھی ہوتے ہیں جو کھانے وقت انتہائی لطف دیتے ہیں گُلاب کے پھول کے ارد گرد بھی بہت کانٹے ہوتے ہیں تو کتنوں نے ان کانٹوں کی وجہ سے گُلاب سے اپنا عشق کم کیا ؟ یہی پلّا کا معاملہ ہے جو پلّا کے عاشق اور شوقین ہیں وہ اس کے ہوتے ہوۓ دوسری مچھلی کو کم ہی ہاتھ لگائیں گے پلّہ کا شمار ہمیشہ سے مہنگی قسم کی مچھلیوں میں رہا ہے مگر اب اس کی قیمت اور بھی اوپر چلی گئی ہے دریاۓ سندھ میں کم پانی ہونے کے سبب اب سمندر سے یہ مچھلی کم ہی دریا میں داخل ہوتی ہے اسلئے دو سے تین کلو مچھلی چار سے پانچ ہزار روپے کی ملتی ہے وہ بھی برف لگی اور کئی کئ ہفتے پُرانی، جس سے اس کا ذائقہ ختم ہو جاتا ہے اور اس جیسی بیش قیمت مچھلی اور عام سستی مچھلی میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا فرق رہتا ہے تو صرف نام کا۔ موسم سرما میں یا کسی خوشگوار دن کی مناسبت سے جب دریا میں پانی چڑھتا ہے سندھ اور کراچی میں رہنے والے پلّہ کے شوقین اسے کھانے جامشورو کوٹری بیراج پہنچتے ہیں اور وہیں توے پر تلی جانے والی گرم گرم پلہ کھا کر واپس آ جاتے ہیں
پاکستان کے ہمسایہ ممالک انڈیا اور بنگلہ دیش میں پلّہ مچھلی ہلسا hilsa کہلاتی ہے۔ بنگلہ کی ایک مثل ہے ‘ ہلدی ، ہری مرچ ، ہلدی کا شوربہ اور ہلسا ‘ شاید ہی کوئی بنگالی ہو جس نے ہلسا مچھلی نہ کھائی ہو بلکہ میں بنگلہ دیش میں اس مچھلی کے بارے میں بہت حساس جذبات دیکھتا ہوں ایک عام بنگالی کے دماغ اور سوچوں میں بھی یہ مچھلی تیر رہی ہوتی ہے ڈھاکہ میں ایک بات مشہور ہے کہ جو بنگالی ہلسا پسند نہیں کرتا وہ غیر بنگالی ہے آپ کسی بنگالی سے براہِ راست یہ سوال نہیں ہوچھ سکتے کہ تمھیں ہلسا پسند ہے یا نا پسند ؟ بلکہ آپ کا سوال ایسے ہونا چاہئیے کہ تمھیں خلیج بنگال کی ہلسا پسند ہے یا گنگا دریا کی ورنہ وہ آپ سے اس بات پر ناداض ہو گا کہ اس مچھلی کے لیے نا پسند کا لفظ کیوں استعمال کیا گیا
آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ ہلسا بنگلہ دیش کی قومی مچھلی ہے جیسا کہ پاکستان کی قومی مچھلی مہا شِیر یا انڈیا کی گنگا ڈولفن (جسے susu بھی کہتے ہیں )
آپ اگر چاہتے ہیں کہ پلّہ مچھلی ہم با آسانی کھاتے رہیں اس کا ناقابل یقین حد تک مزیدار پلّہ پلاؤ ہم نوشِ جا کرتے رہیں، بیسن اور چاول کے مکسڈ آٹے میں اسکے کے پارچے بنا کر ہمیں تل تَل کر کھلاۓ جاتے رہیں اور اس نرم اور خستہ تیار ہونے والی مچھلی کا سالن روٹی یا چاولوں کے ساتھ آپ کے لطف ِدہن کا سامان کرتا رہے اور ہم آئندہ نسل کی لطف اندوز ی کو بھی ذہن میں رکھیں تو میری اس تحریر کے پڑھنے والوں سے گزارش ہے کہ وہ ہمارے فورم سے اس کے ناجائز شکار کے خلاف آواز اُٹھائیں اور اس مچھلی کے بارے میں اپنے تاثرات ہم سے شئیر کریں
اچھی خوراک سے ہم اسوقت زیادہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں کہ جب ہمارے پاس اس خوراک سے متعلق اچھی معلومات بھی ہوں گی
کباب خانہ کے لئے یہ مضمون سید شایان نے تحریر کیا۔
سید شایان پیشے کے اعتبار سے بزنس مین ہیں اور لاہور پاکستان کے علاقے مین گلبرگ میں اپنی بزنس فرمز چلاتے ہیں کھانا پکانے کے شوقین، ماہرِ آشیز اور کھانوں کے تاریخ نویس ہیں. ان کی ایک فرم جو کباب خانہ بلاگ اور ویب سائٹ چلاتی ہے فائیو سٹارز ہوٹلز اور بڑے بار بی کیو ریسٹورنٹس کے لئے فوڈ کنسلٹنسی مہیا کرتی ہے اور مختلف food events پر کام کر رہی ہے سید شایان کھانوں سے جُڑی اشیأ جیسے مصالحے ، گوشت ، سبزی ، پھل ، ڈیریز اور گھی و آئل کے استعمال کو خوب جانتے اور سمجھتے ہیں اور آجکل کباب خانہ بلاگ اور ویب سائٹ کے لئے کھانوں کی ایک سیریز لکھ رہے ہیں
Views:930
Post a Comment
Comments
usama
very informative
Like Reply 2 years agoMohammad Azher Bhaur
شاندار اكتساب . . . . . . . . پلہ مچھلی کے بارے اتنی ضخیم معلومات . واہ . . واہ . .
Like Reply 2 years agoHassan
Wow
Mohammad Azher Bhaur
What ww call palla . fish in English . . .
Like Reply 2 years agoSyed Shayan
Azher Bhaur Palla fish is called llish in English
ejaz Malik.
v informative and interesting column. i did not know your interest in this field also.apart from others? looking forward having good food coocked by you. love you
Like Reply 2 years ago