مچھلی کے تکّے اور کباب
تحریر : سید شایان
سردیوں کی شاموں میں مچھلی کے تکّے اور کباب باقائدگی سے استعمال کیجئیے
برصغیر میں ایک کہاوت پچھلے چار ہزار سال سے چلی آ رہی ہے کہ جن مہینوں میں ‘ ر ‘ یا R کا حرف آتا ہے صرف ان مہینوں میں مچھلی کھانی چاہئیے یعنی ستمبر سے اپریل تک۔ اسلئے ہمارے ہاں مئی جوُن جولائی اگست میں بہت لوگ مچھلی نہیں کھاتے اور اس کہاوت کا مطلب یہ لیا جانے لگا کہ گرمی کے موسم میں مچھلی کھانے سے پرہیز کیا جاۓ لیکن اصل بات یہ نہیں ہے موسمِ گرما سے اس کہاوت کا کوئی تعلق نہیں بلکہ دلچسپ وجہ یہ ہے کہ چونکہ یہ مہینے مچھلی کی افزائش نسل کے ہوتے ہیں اور مچھلی افزائش نسل کے لئے انڈے دیتی ہے اور زچّہ ( pregnant ) ہوتی ہے جس سے اس کے گوشت میں وہ طاقت لذت اور خاصیت کم ہو جاتی ہے جو مچھلی کے گوشت کا خاصا ہے اس لئے حُکمأ نے ان مہینوں میں مچھلی کے شکار سے منع کیا اور اسکے استعمال کو محدود کرنے کو کہا ہے ایک اور تحقیق یہ بتاتی ہے کہ حُکمأ نے مچھلی کی صرف ایک قسم oyster یعنی وہ مچھلی جو سِیپ میں پائی جاتی ہے اور جسے اردو میں کستُورا مچھلی( shell fish ) کہتے ہیں، کو اور جھینگوں کو گرم مہینوں میں کھانے سے منع کیا ہے مجھے یاد ہے کہ 1980 کی دہائی میں ، جب مزنگ چونگی لاہور میں بشیر دارلماہی سے فرائیڈ فش لینے کا اتفاق ہوتا تو اکثر باؤ بشیر سے بھی گپ لگاتا تھا باؤ بشیر پرانی وضع کا سیدھا سادھا سا آدمی تھا اس زمانے میں وہ اپنی پرانی دوکان میں جہاں چھ سے آٹھ لوگوں کے بیٹھنے کی گنجائش تھی خود مچھلی کڑاھے میں ڈال کر تلتا اور پھر خود چوکی پر بیٹھ کر گاہکوں کا سودا تولتا اور پیسے وُصولتا۔ ایک روز جب میں دوستوں کے ساتھ مچھلی کھانے اس کی دوکان گیا تو دوکان کا شٹر گرا تھا اور باؤ بشیر دوکان کو باہر سے رنگ روغن کرا رہا تھا میں نے باؤ سے مچھلی کا پوچھا تو باؤ نے بتایا کہ اب چار مہینے اسکی دوکان بند رہے گی اور دوبارہ یکم ستمبر کو کُھلے گی میں نے وجہ پوچھی تو اس سادا آدمی نے مجھے یہ اس کی وجہ بتائی کہ گرمیوں میں مچھلی نہیں کھانی چاہییے کیونکہ یہ جسم میں گرمی کرتی ہے آج 2021 میں بشیر دارلماہی ترقی کر کے بہت آگے نکل گیا ہے باؤ بشیر تو زندہ نہیں لیکن اسکے پوتے اسی نام سے یہ کاروبار چلا رہے ہیں اور دادا کی روایت میں، لاہور میں جو انکی چھ آٹھ برانچیں ہیں وہ سب کی سب مئی سے اگست تک، ہر سال چار مہینے بند رہتی ہیں۔
صرف برصغیر پاکستان اور انڈیا ہی میں نہیں یورپ اور برطانیہ میں بھی (گرمی نہ ہونے کے باوجود ) صرف R کے مہینوں ہی میں مچھلی کھانے کا تصُور رہا ہے انگلستان کا مشہور نیچرل تاریخ دان ہنری والٹر بیٹس Henry Walter Bates جس نے گیارہ سال ایمزون کےجنگلوں میں زمینی اور آبی جانوروں کے ساتھ گزارے تھے اس نے بھی اپنی کتاب میں جو غالباً 1860 میں شائع ہوئی اس نے لوگوں پر زور دیا کہ R کے مہینوں کے علاوہ کے مہینوں میں مچھلی کھانے سے اجتناب کریں لیکن ایسا ہو نہیں رہا انگلینڈ میں سب سے زیادہ کھائی جانے والی ٹیک اوے ڈش جسے ‘فش اینڈ چپس’ کہا جاتا ہے 12 مہینے بکتی ہے
سردیوں کے موسم میں چونکہ آپ بے دھڑک مچھلی کھا سکتے ہیں تو ضرورت اس امر کی ہے کہ آپ آج ہی بازار جائیں اور مچھلی خرید کر لائیں اور اسے گھر میں بھی خُود اپنی recipe سے تیار کریں یقین مانئے اس کو بنانا انتہائی آسان ہے جس سے آپ اور آپ کے اہلِ خانہ پُورا ہفتہ آسانی سے فِش خُود بھی کھائیں گے اور گھر آۓ مہمانوں کی تواضع بھی کر سکیں گے ۔ مچھلی خریدنا ہرگز مشکل نہیں ہے مثال کے طور پر آپ کو تازہ مچھلی خریدنی ہے اس کے لئیے آپ مچھلی کو بغور دیکھیں تازہ مچھلی کی کھال اور آنکھوں میں ایک چمک ہوتی ہے اس کا جسم ڈھلکا ڈھلکا نہیں ہوتا ایک دم ٹائٹ ہوتا ہے اس کے گلپھڑے اور پیٹ سے خون رِس رہا ہوتا ہے اور ان کی رنگت سرخ ہوتی ہے اگر گلپھڑے (air bladders) گہرے براؤن رنگ کے یا سیاہی مائل ہوں تو ایسی مچھلی باسی ہوتی ہے جو آپ کے جسم کو نقصان دے سکتی ہے آپ مچھلی کے جسم کو انگلی سے دبا کر دیکھیں اگر دبانے سے گڑھا پڑ جاۓ تو سمجھ لیں کہ یہ رکھی ہوئی ہے مچھلی کے پر ہاتھ سے کھینچنے پر اگر مچھلی کے جسم سے نہیں اکھڑتے تو وہ تازہ مچھلی کہلاۓ گی
مچھلی خریدنے کی پہچان کے بعد اب مرحلہ ہے کہ کون سی قسم کی مچھلی خریدی جاۓ پاکستان میں اسوقت تین سو اقسام کی مچھلیاں سمندر، دریا ، جھیلوں نہروں اور فِش فارمز میں پائی جاتی ہیں جن میں مہاشِیر مچھلی (mahsheer)
کو پاکستان کی قومی مچھلی ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے روزمرہ کھائی جانے والی مچھلی کی اقسام میں سرِ فہرست رہُو ، سنگھاڑا ، کھگہ ، ڈمبرا، ملِی ، سول، سامن، گلفام ، بام ، پلّہ مُشکا اور ٹراؤٹ شامل ہیں جن کے بارے میں تفصیلاً دوسری قسط میں بتاؤں گا اور کس مچھلی کو کس ترکیب سے تیار کیا جاۓ اس کا ذکر بھی آئندہ کی اقساط میں کرونگا
کباب خانہ کے لئے یہ مضمون سید شایان نے تحریر کیا۔
سید شایان پیشے کے اعتبار سے بزنس مین ہیں اور لاہور پاکستان کے علاقے مین گلبرگ میں اپنی بزنس فرمز چلاتے ہیں کھانا پکانے کے شوقین، ماہرِ آشیز اور کھانوں کے تاریخ نویس ہیں. ان کی ایک فرم جو کباب خانہ بلاگ اور ویب سائٹ چلاتی ہے فائیو سٹارز ہوٹلز اور بڑے بار بی کیو ریسٹورنٹس کے لئے فوڈ کنسلٹنسی مہیا کرتی ہے اور مختلف food events پر کام کر رہی ہے سید شایان کھانوں سے جُڑی اشیأ جیسے مصالحے ، گوشت ، سبزی ، پھل ، ڈیریز اور گھی و آئل کے استعمال کو خوب جانتے اور سمجھتے ہیں اور آجکل کباب خانہ بلاگ اور ویب سائٹ کے لئے کھانوں کی ایک سیریز لکھ رہے ہیں
Views:191
Post a Comment
Comments