مچھلی اور مچھلی کے کباب/ باربی کیُو/ سالن (قسط 1)


تحریر: سید شایان

بارے رہُو کے کچھ بیان ہو جاۓ 


دریا یا جھیل کنارے ڈنڈیوں پر ڈور لگا کر مچھلی شکار کر کے تازہ مچھلی کھانے کا جو مزہ ہے وہ لوگ اس مزے سے نا آشنا ہی رہیں گے جو مارکیٹ سے مچھلی خرید کر کھاتے ہیں

مچھلی کے بارے میں ایک اہم حساس بات اور بتاتا چلوں کہ مچھلی (کےگوشت ) کو صرف مچھلی کہا جاتا ہے ۔ اسے مچھلی کا گوشت کہنا غلط ہے دُنیا بھر میں یہی دستور ہے کہ مچھلی کی مخصوص قسم (کے گوشت ) کو بھی اس قسم کے نام سے پُکارا جاتا ہے جیسا کہ رہو ، ٹراؤٹ، ٹونا، سامن وغیرہ ، اسے ہر جگہ مچھلی ہی کہا جا ئیگا مچھلی کا گوشت نہیں ، مثال کے طور پر کہ یہ مچھلی بہت تازہ ہے یا آج ہمارے گھر میں مچھلی پکی ہے یا بہت سے حکیم اطبا اور طبیب رہُو مچھلی کو گرم تاثیر کی وجہ سے جنسی کمزوری کو دور کرنے کے لیے بطور دوا تجویز کرتے ہیں

انگلش زبان میں بھی مچھلی (کے گوشت ) کے لئے meat کی بجاۓ لفظ flesh استمال کیا جاتا ہے

ہمیں یہ لازمی معلوم ہونا چاہییے کہ ہم جو مچھلی کھا رہے ہیں اس کا نام ، خاصیت ، استعمال اور قیمت کیا ہے ؟ یاد رکھئیے سمجھ کر چیزوں کو کھانے کا لُطف ہی اور ہے اور اسی لئے میں اپنے ہر مضمون میں کوشش کرتا ہوں کہ جس ڈش کی بھی بات کروں چار حوالہ جات اس کے بیان کروں یعنی ( 1) اسکا تاریخی پس منظر (2) اسکو کھانے کے فوائد (3) اسکے کھانے کا استعمال ( ترکیب و آداب) (4) اسکی قیمت سے آگہی۔

اس مضمون میں، آپ کو میں مچھلی کی بابت بتا رہا ہوں

آپ نے مچھلی کی دوکانوں پر اکثر سُنا ہو گا کہ میٹھے پانی کی مچھلی یا نمکین اور کھارے پانی کی مچھلی ۔ سمندری پانی چونکہ نمکین یا کھارا ہوتا ہے اس میں افزائش پانے والی والی مچھلی نمکین ہوتی ہے جو دریاؤں یا جھیلوں نہروں میں پلتی بڑھتی ہے اسے ہم میٹھے ہانی کی مچھلی کہتے ہیبں

پاکستان کے کراچی اور گوادر کے ساحلوں اور مقامی دریاؤں جھیلوں نہروں اور بیراجوں میں تقریباً ہزار بارہ سو اقسام کی مچھلیاں پائی جاتی ہیں لیکن میں پاکستان میں روز مرہ استعمال میں آنے والی چند مشہور مچھلیوں کی بابت ہی آپ کو بتاؤں گا ۔ پوسٹ کی طوالت کے پیشِ نظر اس مضمون کو میں نے کئی اقساط میں تقسیم کر دیا ہے ہر مچھلی اپنا پُورا تعارف چاہتی ہے اسلئے میں نے کوشش کی ہے کہ ہر قسم کی مچھلی پر ایک مفصّل مضمون تحریر کروں چنانچہ آج اس سلسلے کی پہلی قسط روہُو یا ڈمبرا مچھلی کے بارے میں ہے

روہُو (Rohu) یا ڈمبرا مچھلی

(ایک ہی مچھلی کے دو نام ہیں )

حیدر آباد یا کراچی میں ڈمبرا مچھلی کھاتے وقت میں اکثر سوچتا تھا کہ یہ مچھلی اپنے ذائقے اور جسمانی ساخت میں پنجاب کی رُہو مچھلی سے کسقدر مُشابہہ ہے بہت بعد میں جا کر پتہ چلا کہ رہُو مچھلی اور ڈمبرا ایک ہی مچھلی کے دو نام ہیں

روہُو rohu کو رہو ، کالا رہو اور روئی بھی کہتے ہیں اندرون سندھ اور جنوبی پنجاب میں یہ ڈمبرا کے نام سے پہچانی جاتی ہے

جیسے لاہور اور پنجاب کے گھر گھر میں یہ مچھلی رہُو کے نام سے پکائی جاتی ہے ایسے ہی سندھ میں یہ مچھلی ڈمبرا کے نام سے مقبول ہے اور چھوٹے بڑے جوان سب اسکو بڑے شوق سے کھاتے ہیں ڈمبرا مچھلی کو دریائے سندھ کی beauty Queen بھی کہا جاتا ہے ۔ گدو بیراج سے لے کر کوٹری بیراج , سکھر اور اندرونِ سندھ اسی ایک مچھلی کی صدیوں سے حُکمرانی چلی آ رہی ہے۔ اور سندھ کے لوگ اس مچھلی میں بے بہا کانٹوں کے باوجود اس کے دیوانے ہیں ان کا کہنا ہے کہ جس مچھلی میں کانٹا نہ ہو وہ مچھلی ہی نہیں ہے اس کے برعکس پاکستان کے دوسرے صوبوں پنجاب اور کے پی کے یا بلوچستان میں وہ مچھلی زیادہ پسند کی جاتی ہے جس میں کانٹا کم ہو یا نہ ہو

رہو مچھلی

عام پاکستانی مچھلی میں زیادہ تر رہُو کھانا پسند کرتے ہیں مچھلی کا سالن ہو یا سالم مچھلی فرائی ، بیسن مچھلی فرائی ، مچھلی کی بریانی ، مچھلی کے پکوڑے ، مچھلی کے کباب و تکّے ۔ رہُو واحد مچھلی ہے جسے ہر ڈش میں بے دھڑک استعمال کر لیا جاتا ہے پاکستان میں شادی بیاہ کی تقریبات میں وہ دعوت اعلٰی سمجھی جاتی ہے جس میں کھانے میں رہُو بھی پیش کی گئی ہو۔

رہو سمندری مچھلی نہیں ، بلکہ دریائی مچھلی ہے دوسری مچھلیوں کی طرح رہو ہر آناب شناب شے اور کیڑے مکوڑے نہیں کھاتی بلکہ اس کی غذا میں چھوٹی مچھلیاں اور نباتات و پودے ہوتے ہیں چنانچہ اس (کے گوشت ) میں بدبُو نہیں ہوتی جو مچھلیاں مینڈک کیڑے اور گندگی میں پیدا ہونے والے حشرات کھاتی ہیں ان میں بدبو پیدا ہو جاتی ہے رہُو یا ڈمبرا کو ایک صاف ستھری مچھلی خیال کیا جا تا ہے یہی وجہ ہے کہ اس کا گوشت کھانے میں بے حد لذیذ مانا جاتا ہے مجھے یاد ہےکہ ایک مرتبہ میں نے اچھرہ لاہور کے مشہور مچھلی والے کے ہاں سے مچھلی خریدی تو جب مچھلی تل کر باہر پرات پر ڈالی گئی تو میں نے گرم گرم مچھلی کا ایک ٹکڑا توڑ کر مُنہ میں ڈالا تو اس میں اتنی زیادہ بدُبو تھی کہ مجھے وہ تُھوکنا پڑا حالانکہ وہ مچھلی تازہ اور خوشبو دار مصالحوں میں لپٹی ہوئی تھی میں نے دوکاندار سے اس بات کی شکایت کی کہ اس مچھلی میں بہت بدبو آ رہی ہے اور مجھے شک ہے کہ یہ رہو مچھلی نہیں ہے تو میری شکایت ہر وہ مُسکرایا اور تھال میں بیسن لگی نیم تلی مچھلیوں کے ڈھیر میں سے ایک پیس نکال کر گرم تیل کے کڑاھے میں ڈال دیا اور مکمل تلے جانے پر اس کو نکال کر پرات میں ڈالا اور مجھے اشارے سے چکھنے کو کہا میں نے مچھلی کا ایک ٹکڑا منہ میں رکھا تو اس میں کیا خوشبو اور ذائقہ تھا بیان سے باہر ہے یہ واقعہ بیان اس لئے کر رہا ہوں کہ بتا سکوں کہ رہو میں کبھی بدبو نہیں ہوتی لیکن دوکانوں میں روزانہ منوں ٹنوں کے حساب سے مچھلی بکتی ہے اسلئے بہت مشکل ہے کہ آپ کو تمام مچھلی رہو ملے

جو رہُو ایک ڈیڑھ کلو یا اس سے کم کی ہو اس میں کافی کانٹے ہوتے ہیں لیکن تین کلو وزن والی مچھلی میں چھوٹےکانٹے کم ہو جاتے ہیں اور پانچ کلو والی سے بڑی رہو میں ایک بڑا کانتا رہ جاتا ہے

چھوٹی رُہو کی قیمت آجکل ڈھائی سو روپے سے تین سو روپے کلو ہے اور بڑی رہُو کی قیمت چار سے پانچ سو روپے کلو۔

(جاری ہے)

کباب خانہ کے لئے یہ مضمون سید شایان نے تحریر کیا۔

سید شایان پیشے کے اعتبار سے بزنس مین ہیں اور لاہور پاکستان کے علاقے مین گلبرگ میں اپنی بزنس فرمز چلاتے ہیں کھانا پکانے کے شوقین، ماہرِ آشیز اور کھانوں کے تاریخ نویس ہیں. ان کی ایک فرم جو کباب خانہ بلاگ اور ویب سائٹ چلاتی ہے فائیو سٹارز ہوٹلز اور بڑے بار بی کیو ریسٹورنٹس کے لئے فوڈ کنسلٹنسی مہیا کرتی ہے اور مختلف food events پر کام کر رہی ہے سید شایان کھانوں سے جُڑی اشیأ جیسے مصالحے ، گوشت ، سبزی ، پھل ، ڈیریز اور گھی و آئل کے استعمال کو خوب جانتے اور سمجھتے ہیں اور آجکل کباب خانہ بلاگ اور ویب سائٹ کے لئے کھانوں کی ایک سیریز لکھ رہے ہیں


Views:384



Post a Comment


Comments



سید شایان بلاگ سے متعلقہ مزید پوسٹ



سپانسرز