مصالحہ کہانی
تحریر : سید شایان
مغلیہ سلطنت کےابتدائی دور میں بابر اور ہمایوں کے دسترخوان پر جو کھانے چُنے جاتے تھے ان میں ہمیں مصالحوں( spices ) کا استعمال نظر نہیں آتا بلکہ پھل اور خُشک میوہ جات بادام، اخروٹ،پستہ، خشک خوبانی، انجیر ، کشمش ، خشک آلوچے وغیرہ روزمرہ کے کھانوں اور تکّہ کبابوں میں استعمال ہوتے تھے مثال کے طور پر قورمے میں شوربہ گاڑھا کرنےکے لئے پیاز اور لہسن کی بجاۓ بھیگے ہوۓ چِھلے باداموں کو پیس کر سالن میں ملایا جاتا تھا بار بی کیو کے لئے بوٹیاں دہی اور مصالحوں کی بجاۓ انناس کے جُوس میں marinate کی جاتی تھیں
ہمایوں بادشاہ شکست کے بعد جب ایران سے واپس ہندوستان آیا تو ایران کے بادشاہ نے اپنا ایک خاص باورچی اس کے ہمراہ کر دیا تھا جو کھانوں میں مہک اور ذائقے کے لئے لہسن اور پیاز استعمال کرتا تھا ہندو براہمن اور جَین مذہب میں لہسن پیاز کی ممانعت تھی اور وہ کھانوں میں مہک اور ذائقہ کے لئے پیاز اور لہسن کی بجاۓ ہینگ اور سونف استعمال کرتے
شہنشاہ اکبر کے دور میں اسوقت مُغل کھانوں میں ہلدی، دارچینی، لونگ، مرچ، دھنیا ، زیرہ اور ادرک کا استعمال شروع ہُوا جب ہندو راجپوت شہزادی مریم الزمانی سے اکبر نے شادی کی کیونکہ ہندی کھانوں میں مصالحوں کا استعمال لازمی تھا۔ جودھا بائی سے اکبر کی شادی کے بعد تو پورے مُغل دسترخوان کا ذائقہ بدلا گیا اور دو الگ الگ مذاہب کو ماننے والے جب دسترخوان پر اکٹھے بیٹھے تو وہ کھانے وجود میں آۓ جو دونوں کے لیے قابلِ قبول تھے اور جنہیں ہم آج mughlai cusine کہتے ہیں لیکن ان مغل کھانوں کو عروج شہنشاہ جہانگیر کے دور میں پہنچا جو ہندو شہزادی جسے اکبر نے مُسلمان کر کے مریم الزمانی کا خطاب دیا تھا کے بطن سے پیدا ہُوا تھا اور جس کے جسم میں دو تہذیبوں کا خُون دوڑ رہا تھا ۔ جہانگیر کے دربار میں پہلی مرتبہ ایرانی، تُرکی ، سنٹرل ایشین ، مشرق وسطی کے تمام عرب ممالک کے اہم کھانوں کی تراکیب (recipes )کو ہندوستانی کھانوں کی recipes اور مصالحوں سے blend کیا گیا اور پھر وہ کھانے وجود میں آۓ جو ہر تہذیب اور ہر مذہب کے ماننے والے کو قابل قبول تھے اس کے لئے مغل دربار میں باقائدہ ایک وزارت قائم ہوئی اور چیف شیف کو وزیر کا درجہ حاصل ہُوا
مُغل سلطنت دہلی یُو پی بہار بنگال اور پنجاب سے لیکر پشاور کے سرحدی علاقوں تک میں قائم تھی لیکن مغلوں کو سمندروں اور پانیوں میں کوئی دلچسپی نہیں تھی ( شاید اس کی ایک وجہ یہ ہو کہ بابر بادشاہ کا تعلق ایک land locked ملک سے تھا )اور اسی زمانے میں پُرتگیزی عیسائی تاجر پُرتگال اور یورپ سے لال مرچ ٹماٹر اور آلوؤں کے جہاز لیکر انڈیا کے مالا بار کے ساحلوں پر پھیل چکے تھے اور یہاں اپنی حکومت بھی قائم کر چکے تھے لیکن مغلوں کو کوئی دلچسپی یا احساس نہیں تھا کہ ان کے ملک کے ساحلوں پر پُرتگیزی قبضہ کر چکے ہیں لال مرچ ٹماٹر اور آلو لیکر یہ تاجر مُغل بادشاہ کے دربار میں پہنچے تو پہلی مرتبہ یہاں کے مقامی کھانوں میں کالی مرچ کی بجاۓ لال مرچ کا استعمال شروع ہوا اور املی ، آمچُور ، زیرے یا رائی کے بجاۓ ٹماٹروں سے کھانوں میں نرم کھٹاس پیدا کی گئی آلو تو روز ِ اول ہی سے مغل دسترخوان کی زینت بن گئے
پُرتگال کے یہ کیتھولک عیسائی جانتے تھے کہ انڈیا میں کئی مذاہب کے لوگ صدیوں سے آباد ہیں اور ہر ایک کے مذہب میں طے کر دیا گیا ہے کیا کھانا ہے کیا نہیں کھانا ہے
لیکن جو ٹماٹر آلو اور لال مرچ یہ لیکر آۓ تھے اس کا ذکر کسی کے بھی مذہب میں نہ تھا اور سب خاموش تھے چنانچہ یہ چیزیں تمام مذاہب کے لوگوں کے لئے قابل قبول ہو گئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے ٹماٹر آلو اور لال مرچ اسقدر مقبول ہوۓ کہ ہندوستان میں کوئی کھانا اب ان کے بغیر نا مکمل سمجھا جانے لگا
ان تینوں چیزوں کی ڈیمانڈ اتنی بڑھی کہ پُرتگال سے ہندوستان تک کا بحری راستہ جہازوں کی آمدورفت سے تاریخ کا مصروف ترین راستہ اور گلوبلائیزیشن کی پہلی مثال بن گیا ۔۔۔۔ اور یہاں سے دُنیا کی تاریخ میں گلوبلائیزیشن کا آغاز ہُوا
کباب خانہ کے لئے یہ مضمون سید شایان نے تحریر کیا۔
سید شایان پیشے کے اعتبار سے بزنس مین ہیں اور لاہور پاکستان کے علاتے مین گلبرگ میں اپنی بزنس فرمز چلاتے ہیں کھانا پکانے کے شوقین، ماہرِ آشیز اور کھانوں کے تاریخ نویس ہیں. ان کی ایک فرم جو کباب خانہ بلاگ اور ویب سائٹ چلاتی ہے فائیو سٹارز ہوٹلز اور بڑے بار بی کیو ریسٹورنٹس کے لئے فوڈ کنسلٹنسی مہیا کرتی ہے اور مختلف food events پر کام کر رہی ہے سید شایان کھانوں سے جُڑی اشیأ جیسے مصالحے ، گوشت ، سبزی ، پھل ، ڈیریز اور گھی و آئل کے استعمال کو خوب جانتے اور سمجھتے ہیں اور آجکل کباب خانہ بلاگ اور ویب سائٹ کے لئے کھانوں کی ایک سیریز لکھ رہے ہیں
فیس بُک کی نئی پالیسی کے تحت اب گروپ ایڈمن ٹیم کے علم میں یہ نہیں ہوتا کہ کس گروپ ممبر نے کس پوسٹ کو وزٹ کیا یا نہیں ، تاوقتیکہ وہ گروپ ممبر اس پوسٹ کو like کرے یا comment کرے اس لئے ممبرز سے درخواست ہے کہ پوسٹ پڑھ کر اسے like یا comment کر دیا کریں تاکہ بلاگ پالیسی کے تحت ہم active ممبرز کو خاص event پر invite کر سکیں یا کسی بار بی کیو ریسٹورنٹ کے free vouchers بھجوا سکیں
کباب خانہ کے لئے یہ مضمون سید شایان نے تحریر کیا۔
سید شایان پیشے کے اعتبار سے بزنس مین ہیں اور لاہور پاکستان کے علاقے مین گلبرگ میں اپنی بزنس فرمز چلاتے ہیں کھانا پکانے کے شوقین، ماہرِ آشیز اور کھانوں کے تاریخ نویس ہیں. ان کی ایک فرم جو کباب خانہ بلاگ اور ویب سائٹ چلاتی ہے فائیو سٹارز ہوٹلز اور بڑے بار بی کیو ریسٹورنٹس کے لئے فوڈ کنسلٹنسی مہیا کرتی ہے اور مختلف food events پر کام کر رہی ہے سید شایان کھانوں سے جُڑی اشیأ جیسے مصالحے ، گوشت ، سبزی ، پھل ، ڈیریز اور گھی و آئل کے استعمال کو خوب جانتے اور سمجھتے ہیں اور آجکل کباب خانہ بلاگ اور ویب سائٹ کے لئے کھانوں کی ایک سیریز لکھ رہے ہیں
Views:158
Post a Comment
Comments