نہاری جسے پاکستان کی قومی ڈش کا درجہ حاصل ہے


تحریر: سید شایان

استاد گنجے نہاری والے پُرانی دلّی


کباب خانہ’بلاگ کے ایک سروے میں نہاری کو پاکستان کی قومی ڈش قرار دینے کی بابت تفصیلات سے جلد آپ کو آگاہ کرونگا فی الحال نہاری کے حوالے سے ایک دلچسپ تحریر آپ سے شئیر کرنا چاہتا ہوں نہاری دراصل دل٘ی والوں کی دَین ہے یہ سب سے پہلے دہلی سے شروع ہوئی اسی تہذیب میں پلی بڑھی ، جوان ہوئی اور پھر وہاں سے نکل کر ملکوں ملکوں پھیل گئی پاکستان میں بھی نہاری ہر شہر ہر گھر میں بڑے ذوق و شوق سے کھائی جاتی ہے نہاری کے ابتدائی دنوں کے واقعات اور اس زمانے میں نہاری کھانے کا دلچسپ احوال شاہد احمد دہلوی کی کتاب ‘دلی جو ایک شہر تھا’ سے اخذ کیا گیا ہے مضمون کا عنوان ہے۔ دلی کے چٹخارے ۔ لیجئیے ، پڑھئیے گُزشتہ دلی کی پُوری تہذیب کو اس نہاری نے دوبارہ زندہ کر دیا ہے اور اس دور کا ہر شخص اس مضمون میں جیتا جاگتا نظر آتا ہے

۔۔ حاجی نانبائی کے ہاں یوں تو شادی بیاہ کے لئے خمیری، کلچے اور شیر مال تیار کئے جاتے اور ایسے ملائم کہ ہونٹوں سے توڑ لو، ان کا ہنر دیکھنا ہو تو فرمائش کر کے پکوا لیجئے۔ روٹیوں کے نام ہی سن لیجئے، روغنی روٹی، بری روٹی، قیمہ بھری روٹی، بیسنی روٹی، گاؤدیدہ، گاؤ زبان، باقر خانی، شیرمال، بادام کی روٹی، پستے کی روٹی، چاول کی روٹی، گاجر کی روٹی، مصری کی روٹی، غوثی روٹی، نان منبہ، نان گلزار، نان قماش، تافتان، روَے کے پراٹھے، میدے کے پراٹھے، گول، چوکور، تکونے۔ غرض روٹی کی کوئی شکل اور ترکیب ایسی نہیں جوان کے تندور میں تیار نہ ہو سکتی ہو۔

حاجی نان بائی کا ذکر آیا تو یادش بخیر میاں گنجے نہاری والے یاد آ گئے۔ اصل میں نہاری والے نان بائی ہی ہوتے ہیں، بھٹیارے نہیں ہوتے۔ نہاری تو جاڑوں میں کھائی جاتی ہے۔ گرمیوں اور برسات میں نہیں کھائی جاتی۔ خالی دنوں میں نہاری والے اپنا تندور گرم کرتے ہیں اور روٹی پکانے پر ان کی گزر اوقات ہوتی ہے۔ ۴۷ء میں دلی اجڑنے سے پہلے تقریباً ہر محلے میں ایک نہاری والا موجود تھا۔ لیکن اب سے ۴۰۔ ۵۰ سال پہلے صرف چار نہاری والے مشہور تھے۔ انھوں نے شہر کے چاروں کھونٹ داب رکھے تھے۔ گنجے کی دکان چاندنی چوک میں نیل کے کٹرے کے پاس تھی اور شہر میں اس کی نہاری سب سے مشہور تھی۔

دلی سے باہر اکثر لوگ یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ نہاری کیا ہوتی ہے۔ بعض شہروں میں یہ لفظ کچھ اور معنوں میں مستعمل ہے، مثلاً چوپایوں کو، خصوصاً گھوڑوں کو تقویت دینے کے لئے ایک گھولوا پلایا جاتا ہے جسے نہاری کہتے ہیں۔ بعض جگہ پایوں کو نہاری کہا جاتا ہے۔ دلی میں یہ ایک خاص قسم کا سالن ہوتا تھا جو بڑے اہتمام سے تیار کیا جاتا تھا اور بازاروں میں فروخت ہوتا تھا۔ اس کے پکانے کا ایک خاص طریقہ ہے اور اس کے پکانے والے بھی خاص ہوتے ہیں۔ نہاری کو آج سےنہیں ۱۸۵۷ء کے پہلے سے دلی کے مسلمانوں میں بڑی اہمیت حاصل ہے۔ یوں تو گھر میں بھی اور باہر بھی سیکڑوں قسم کے قورمے پکتے ہیں مگر نہاری ایک مخصوص قسم کا قورمہ ہے جس کا پکانا سوائے نہاری والوں کے اور کسی کو نہیں آتا۔

اس کی پُخت و پز کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اسے ساری رات پکایا جاتا ہے اور پکنے کی حالت میں ہمہ وقت اس کا تاؤ مساوی رکھا جاتا ہے۔ اس کام کے لئے بڑی مشق و مہارت کی ضرورت ہے۔ تیسرے پہر سے اس کی تیاری شروع ہوتی ہے۔ دکان کی دہلیز کے پاس زمین میں گڑھا کھود کر ایک گہرا چولہا یا بھٹی بنائی جاتی ہے اور اس میں ایک بڑی سی دیگ اس طرح اتار کر جمادی جاتی ہے کہ صرف اس کا گلا باہر نکلا رہ جاتا ہے۔ چولہے کی کھڑکی باہر کے رخ کھلتی ہے۔ اس میں سے ایندھن ڈالا جاتا ہے جو دیگ کے نیچے پہونچ جاتا ہے۔ آگ جلانے کے بعد جیسے قورمے کا مسالا بھونا جاتا ہے۔ گھی میں پیاز داغ کرنے کے بعد دھنیا، مرچیں، لہسن، ادرک اور نمک ڈال کر نہاری کا مسالا بھونا جاتا ہے۔ جب مسالے میں جالی پڑ جاتی ہے تو گوشت کے پارچے، خصوصاً ادلے ڈال کر انھیں بھونا جاتا ہے۔ اس کے بعد اندازے سے پانی ڈال کر دیگ کا منھ بند کر دیا جاتا ہے۔

پکانے والے کو جب آدھ گلے گوشت کا اندازہ ہو جاتا ہے تو دیگ کا منہ کھول کر اس میں پچیس تیس بھیجے اور اتنی ہی نلیاں یعنی گودے دار ہڈیاں ڈال دی جاتی ہیں۔ شوربے کو لبدھڑا بنانے کے لئے آلن ڈالا جاتا ہے۔ پانی میں آٹا گھول کر آلن بنایا جاتا ہے۔ یہ دیگ ساری رات پکتی رہتی ہے اور اس کا تاؤ دھیما رکھا جاتا ہے۔ بارہ چودہ گھنٹے پکنے کے بعد جب علی الصبح دیگ پر سے کونڈا ہٹایا جاتا ہے تو دور دور تک اس کی اشتہاء انگیز خوشبو پھیل جاتی ہے۔ سب سے پہلے دیگ میں سے بھیجے اور نلیاں نکال کر الگ لگن میں رکھ لی جاتی ہیں۔ پھر گاہکوں کا بھگتان شروع ہوتا ہے۔ یہ کھانا چونکہ دن کے شروع ہوتے ہی کھایا جاتا ہے، اس لئے اس کا نام نہار کی رعایت سے نہاری پڑ گیا۔

ہاں تو ذکر تھا گنجے نہاری والے کا۔ دلی والوں کے علاوہ قرب و جوار سے بھی لوگ ان کی نہاری کھانے آیا کرتے تھے، خصوصاً علی گڑھ کالج کے لڑکے اتوار کو دھاوا بولا کرتے تھے۔ اسی سلسلے میں ہمیں بھی چند بار گنجے صاحب کی نہاری سے لطف اندوز ہونےکا موقع ملا۔ ان کی دکان گجردم کھلتی تھی اور کھلنے سے پہلے گاہک موجود ہوتے تھے۔ کسی کے ہاتھ میں پتیلی، کوئی بادیہ، کوئی ناشتہ دان سنبھالے سردی میں سکڑتا، سوں سوں کرتا ٹہل لگا رہا ہے۔ نپی تلی ایک دیگ پکتی اور ہاتھوں ہاتھ بک جاتی۔ ذرا دیر سے پہونچے تو میاں گنجے نے معذرت کے لہجے میں کہا، ’’میاں اب خیر سے کل لیجئے گا اور ذرا سویرے آئیےگا۔‘‘

نہاری کے مسالوں کا وزن اور پکانے کا طریقہ اوروں کو بھی معلوم ہے مگر وہ ہاتھ اور نگاہ جو استاد گنجے کو میسر تھی وہ کسی اور کو نصیب نہ ہوئی۔ اکثر لوگ خود ان سے دریافت بھی کرتے تھے کہ ’’آخر استاد کیا بات ہے کہ دوسروں کے ہاتھ نہاری میں یہ لذت نہیں ہوتی؟‘‘ وہ ہنس کر کہہ دیا کرتے تھے کہ ’’میاں بزرگوں کی جوتیوں کا صدقہ اور حضرت سلطان جی کا فیض ہے، ورنہ میں کیا اور میری بساط کیا۔‘‘

استاد گنجے کے کردار پر روشنی ڈالنے سے پہلے ضروری ہے کہ کچھ ان کا سراپا بھی بیان کر دیا جائے۔ ’’گنجے‘‘ کے نام سے خواہ مخواہ ذہن میں ایک کراہت سی پیدا ہوتی ہے۔ نفیس مزاج اور نازک خیال لوگ تو گنجے کے ہاتھ کا پانی پینا بھی گوارہ نہیں کر سکتے۔ لیکن استاد کو سرے سے گنج کی بیماری تھی ہی نہیں۔ اصل میں ان کی چندیا کے بال جھڑ گئے تھے اور ٹانٹ صاف ہو کر تامڑا نکل آیا تھا، جس کے تین طرف چار انگل چوڑی بالوں کی ایک جھالر سی تھی۔

دلی کے چلبلی طبیعت والے بھلا کب چوکنے والے تھے۔ گنجے کی پھبتی ان پر کسی اور یہ کچھ ایسی جمی کہ چپک کر رہ گئی۔ گندمی رنگ کا گول چہرہ، خشخشی ڈاڑھی، بڑی بڑی چمکدار مگر حلیم آنکھیں، باوجود نہاری فروشی کے ان کا لباس ہمیشہ صاف ستھرا رہتا تھا۔ لٹھے کا شرعی پاجامہ، نیچا کرتہ، کرتے پر بہت صوفیانہ چھینٹ کی نیم آستین، سر پر صافہ۔ کسرتی اور بھرابھرا بدن، کوئی دیکھے تو سمجھے کہ بڑے خرانٹ ہیں۔ بات بات پر کاٹنے کو دوڑتے ہوں گے، مگر ان کی طبیعت اس کے بالکل برعکس تھی۔ بالعموم نامی دکاندار بڑے بدمزاج اور غصیل ہوتے ہیں، جیسے چچا کبابی کہ بڑے ہتھ چھٹ تھے اور مارپیٹ تک سے نہیں چوکتے تھے۔ استاد گنجے بڑے خلیق اور رکھ رکھاؤ کے آدمی تھے۔ ہم نے کبھی نہیں سنا کہ انہیں تاؤ آیا ہو یا کبھی ان کے منہ سے کوئی ناشائستہ کلمہ نکلا ہو۔ ہر گاہک سے چاہے وہ آنے دو آنے کا ہو، چاہے روپے دو روپے کا، بڑی نرمی سے بات کرتے اور مستقل گاہکوں کو تو اپنا مہمان سمجھتے تھے۔

استاد گنجے کے کردار میں سب سے نمایاں چیز ان کا علم اور انکسار تھا۔ حضرت نظام الدین اولیا سے جنھیں دلی والے سلطان جی کہتے ہیں، استاد گنجے کو بڑی عقیدت تھی اور یہ سلطان جی ہی کا روحانی تصرف تھا کہ استاد کا دل گداز ہو گیا تھا۔ وہ اپنی ساری کمائی غریبوں، مسکینوں اور محتاجوں کی امداد کرنے میں صرف کر دیا کرتے تھے۔

سلطان جی کی سترہویں میں اپنی دکان بڑے اہتمام سے لے جاتے تھے اور سارے دنوں میں جمعرات کے جمعرات درگاہ میں حاضری پابندی سے ہوتی تھی۔ روپے پیسے سے خوش تھے مگر دلی سے سلطان جی کی درگاہ پیدل جایا کرتے تھے۔ ہر موسم کے لحاظ سے محتاجوں کو کپڑا تقسیم کرتے تھے۔ ہر مہینے گیارہویں کی تیاری ان کے ہاں بڑی دھوم سے ہوتی۔ دن بھر لنگر جاری رہتا۔ جمعرات کو ان کی دکان پر فقیروں کی لنگتار رہتی اور سب کو پیسہ ٹکا ملتا۔ سب سے بڑی بات یہ تھی کہ دکانداری شروع کرنے سے پہلے اللہ نام کا حصہ نکالا کرتے۔ اگر کوئی محتاج موجود ہوا تو پہلے اسے کھلایا ورنہ نکال کر الگ رکھ دیا۔ پھر دیگ میں سے بھیجے اور نلیاں نکال کر طباق میں رکھیں، تار اور رونق کو ایک بڑے بادیے میں الگ نکال لیا۔ اس کے بعد دکانداری شروع ہوئی۔

دکان میں بیسیوں پتیلیاں، دیگچے اور برتن رکھے ہیں۔ کسی میں دو روپے، کسی میں روپیہ، کسی میں بارہ آنے، کسی میں آٹھ آنے پڑے ہیں۔ شوقین اور قدر دان رات کو ہی اپنے اپنے برتن دے گئے ہیں کہ صبح کو مایوس نہ ہونا پڑے۔ سب سے پہلے انہی برتنوں کی طرف استاد کی توجہ ہوتی ہے۔ بڑی تیزی اور پھرتی سے ہاتھ چلاتے ہیں، ادھر گاہکوں کے ٹھٹ کے ٹھٹ لگے ہیں۔ ان کی آرائش کا بھی انہیں خیال ہے۔ گاہک بھی جانتے ہیں کہ جن کے برتن پہلے آ گئے ہیں، انہیں نہاری پہلے ملے گی۔ کسی باہر والے نے، جو یہاں کے قاعدے قرینے نہیں جانتا، جلدی مچائی تو استاد نے رسان سےکہا، ’’ابھی دیتا ہوں۔ جو پہلے آیا ہے اسے اگر پہلے نہ دوں گا تو شکایت ہوگی۔‘‘

برتنوں کی لین ڈوری ختم ہوئی تو گاہکوں کا بھگتان شروع ہوا۔ دو روپے سے دو پیسے تک کے خریدار موجود اور سب کو حصہ رسد ملتا ہے۔ تین گھنٹے میں ڈیڑھ دو سو گاہکوں کو نہاری دی اور دیگ سخی کے دل کی طرح صاف ہو گئی۔ اب جو کوئی آتا ہے تو بڑی انکساری سے کہتے ہیں، ’’میاں معافی چاہتا ہوں۔ میاں اب کل دوں گا، اللہ نے چاہا تو اللہ خیر رکھے، کل کھائیے گا۔‘‘ سبحان اللہ، کیا اخلاق تھا اور کیسی وضعداری تھی۔ آگ اور مرچوں کا کام اور اس قدر ٹھنڈے اور میٹھے! دوسروں کو دیکھئے گالی گلوج، دھکا مکی اور لپاڈگی کی نوبت رہتی ہے۔

استاد گنجے کے ہاں دو قسم کے گاہک آتے تھے۔ ایک وہ جو خرید کر لے جاتے تھے اور دوسرے وہ جو وہیں بیٹھ کر کھاتے تھے۔ وہیں بیٹھ کر کھانے والوں کے لئے دکان کے اوپر کمرے میں نشست کا انتظام تھا۔ یہ ایک چھوٹا سا صاف ستھرا کمرہ تھا جس میں چٹائیاں بچھی رہتی تھی۔ اس کمرے میں ایک ایک دو دو آدمی بھی کھاتے تھے اور دس دس بارہ بارہ کی ٹولیاں بھی۔ استاد سے جتنا جتنا اور جو جو سودا کہا جائے اتنا ہی دیتے تھے، اپنی طرف سے اس میں کمی بیشی نہیں کرتے تھے۔ مستقل گاہکوں کا بہت لحاظ کرتے تھے۔ بڑے مزاج شناس تھے اور ان کی یاد داشت بھی غضب کی تھی۔ صورت دیکھتے ہی کہتے، ’’فرمائیے حکیم صاحب، کیا حکم ہے، حکیم صاحب قبلہ تو خیریت سے ہیں؟‘‘

’’ہاں ڈپٹی صاحب، ارشاد؟ بڑے ڈپٹی صاحب کے دیدار تو روزانہ شام کو ہو جاتے ہیں۔‘‘

’’ہاں میاں، آپ فرمائیے؟ وکیل صاحب سےمیرا سلام عرض کیجئےگا۔‘‘

استاد گنجے کی نہاری دلی کے سب شرفا کے ہاں جاتی تھی۔ ان کی سات پشتیں اسی دلی میں گزری تھیں۔ سارا شہر ان کو جانتا تھا اور یہ بھی دلی کی دائی بنے ہوئے تھے۔ شہر آبادی اور شہر آبادی بعد کے سارے خاندان اور ان کے رودار افراد انھیں ازبر تھے۔ کبھی موج میں ہوتے تو مزے مزے کی باتیں بھی کر لیتے۔ ’’جی چاہتا ہے کہ ڈپٹی صاحب کو ایک دن تحفہ نہاری کھلاؤں۔ اللہ نے چاہا تو اب کے وہ نہاری کھلاؤں گا کہ چلے کے جاڑوں میں پسینہ آ جائے۔‘‘

’’ہاں میاں تو آپ کے لئے کیا بھیجوں؟‘‘

’’استاد، چھ آدمیوں کے لئے نہاری کمرے پر۔‘‘

بس اس سے زیادہ آپ کو کہنے کی اور ان کو سننے کی ضرورت نہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ آپ کی نہاری کا کیا لوازمہ ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ آپ کے ساتھی بھی آپ کے ہم مذاق ہی ہوں گے۔ فی کس پاؤ بھر نہاری کے اندازہ سے انھوں نے نہاری ایک بڑے سے بادئیے میں نکالی۔ گھی آدھ پاؤ فی کس کے حساب سے داغ کرنے انگیٹھی پر رکھ دیا۔ اتنے گھی تیار ہو، انھوں نے چھ بھیجے توڑ صاف صوف کر نہاری میں ڈال دیئے اور بارہ نلیاں بھی اس میں جھاڑ دیں۔ اوپر سے کڑکڑاتا گھی ڈال تانبے کی رکابی سے ڈھک دیا۔ لڑکے کو آواز دے کر پہلے غوریاں اور چمچہ اوپر بھیجا۔ لڑکے نے اوپر پہونچ کر کھونٹی پر سے کھجور کا بڑا سا گول دستر خوان بیچ میں بچھا دیا اور اس پر غوریاں چن دیں۔ پھر لپک کر نیچے آیا اور نہاری کا بادیہ احتیاط سے اوپر پہونچا دیا۔

پھر آفتابہ اور سلفچی لے کر ایک کونے میں کھڑا ہو گیا۔ اتنے وہ ہاتھ دھلائے دوسرا لڑکا تھئی کی تھئی خمیریاں اور ایک رکابی میں گرم مسالہ، ادرک کی ہوائیاں، ہری مرچیں اور کھٹا رکھ گیا۔ سب دستر خوان پر ہو بیٹھے تو وہی لڑکا دہر دہر جلتی انگیٹھی ایک سینی میں ان کے پاس رکھ گیا۔ لڑکا روٹی سینک سینک کر دیتا جاتا ہے۔ دوستوں کے قہقہے چہچے ہوتے جاتے ہیں۔ گھی نے نہاری کی لذت بڑھانے کے علاوہ مرچوں کا دف بھی مار دیا ہے۔ نہاری ذرا ٹھنڈی ہوئی اور غوری انگیٹھی پر رکھی گئی۔

لیجئے، استاد نے آپ کے دوستوں کے لئے ایک خاص تحفہ بھیجا ہے۔ تنور میں سے گرم گرم روٹیاں نکال کر گھی میں ڈال دیں اور روٹیاں گھی پی کر ایسی خستہ اور ملایم ہو گئی ہیں جیسے روئی کے گالے۔ واہ واہ! کیا مزاج دانی اور ادا شناسی ہے! جبھی تو آج تک گنجے نہاری والے کو دلی والے یاد کرتے ہیں۔

یہ تو خیر امیروں کے چونچلے ہیں۔ اصل میں نہاری غریب غربا کا من بھاتا کھا جا ہے۔ دستکار، مزدور اور کاریگر صبح صبح کام پر جانے سے پہلے چار پیسےمیں اپنا پیٹ بھر لیتے تھے۔ دو پیسے کی نہاری اور دو پیسے کی دو روٹیاں ان کے دن بھر کے سہارے کو کافی ہوتیں۔ گھر میں علی الصبح چار پیسے میں بھلا کیا تیار ہو سکتا ہے؟

سستے اور بابرکت سمے تھے۔ ایک کماتا دس کھاتے تھے۔ اب دس کماتے ہیں اور ایک کو نہیں کھلا سکتے۔ وہ وقت نہیں رہے۔ میاں گنجے نہاری والے بھی گزری ہوئی بہاروں کی ایک چٹ پٹی داستان بن کر رہ گئے

سدا رہے نام اللہ کا۔

کباب خانہ کے لئے یہ مضمون سید شایان نے تحریر کیا۔

سید شایان پیشے کے اعتبار سے بزنس مین ہیں اور لاہور پاکستان کے علاقے مین گلبرگ میں اپنی بزنس فرمز چلاتے ہیں کھانا پکانے کے شوقین، ماہرِ آشیز اور کھانوں کے تاریخ نویس ہیں. ان کی ایک فرم جو کباب خانہ بلاگ اور ویب سائٹ چلاتی ہے فائیو سٹارز ہوٹلز اور بڑے بار بی کیو ریسٹورنٹس کے لئے فوڈ کنسلٹنسی مہیا کرتی ہے اور مختلف food events پر کام کر رہی ہے سید شایان کھانوں سے جُڑی اشیأ جیسے مصالحے ، گوشت ، سبزی ، پھل ، ڈیریز اور گھی و آئل کے استعمال کو خوب جانتے اور سمجھتے ہیں اور آجکل کباب خانہ بلاگ اور ویب سائٹ کے لئے کھانوں کی ایک سیریز لکھ رہے ہیں


Views:199



Post a Comment


Comments



مُغلائی کھانے سے متعلقہ مزید پوسٹ



سپانسرز