لکھنئو اور نواب واجد علی شاہ
تحریر : عبدالحیلم شرر کتاب : گُذشتہ لکھنئو
اُس زمانے میں لکھنؤ نے عالم‘ یا سپاہی، یا سائنس دان نہیں، صرف باورچی پیدا کیے۔
جو عیاشیاں کھانے پینے کے حوالے سے تھیں ان کا ذکر پڑھ کر دماغ چکرانے لگ جاتا ہے۔ انتظام سلطنت انگریز کے پاس تھا۔ کٹھ پتلی بادشاہ اور پست ذہن امرا و عمائدین پیٹ پوجا کے نئے نئے تجربے کر رہے تھے۔ نواب اور بیگم کے لیے کھانا ہر روز چھ مختلف باورچی خانوں سے آتا۔ واجد علی شاہ نے دہلی کے شہزادے کی دعوت کی۔ دستر خوان پر مربہ رکھا گیا۔ مہمان نے لقمہ کھایا تو چکرا گیا۔ یہ اصل میں قورمہ تھا۔ اب شہزادے نے بدلہ لینا تھا۔ جوابی دعوت ہوئی۔ پلاؤ، بریانی، قورمہ، کباب، چپاتیاں، اچار، چٹنیاں، پراٹھے سب شکر کے بنے ہوئے تھے۔ سالن بھی شکر کا، چاول بھی شکر کے! ایک شہزادے کی شادی پر ستر قسم کے چاول پکائے گئے۔ کھچڑی جو دیکھنے میں چاول کی لگتی اصل میں بادام اور پستے کی ہوتی۔ باورچی تو تھے ہی، ایک خاص پیشہ رکاب دار تھا‘ یعنی چھوٹی مگر حد درجہ نفیس ہانڈیاں پکانے والے! نواب غازی الدین کے لیے چھ پراٹھے تیس سیر گھی میں پکتے۔ وزیر ذرا با ضمیر تھا۔ اس نے گھی کی مقدار کم کروا دی۔ نواب کو معلوم ہوا تو وزیر کو تھپڑ اور گھونسے رسید کیے۔ ایک رئیس صاحب کے خاصے کا پلاؤ 43 سیر گوشت کی یخنی میں پکتا۔ شیر مال کو لکھنؤ کی نیشنل روٹی قرار دیا گیا۔ ایک خاص پلاؤ ایجاد ہوا جسے موتی پلاؤ کہا گیا۔ ترکیب یوں تھی کہ چاندی اور سونے کے ورق انڈے کی زردی میں حل کیے جاتے۔ پھر اس محلول کو مرغ کے نرخرے میں بھر کر نرخرے کے ہر ہر جوڑ پر باریک دھاگا باندھ دیا جاتا۔ پھر جوش دیا جاتا۔ پھر چاقو سے نرخرے کی کھال چاک کی جاتی۔ اس میں سے موتی نکل آتے جو پلاؤ میں گوشت کے ساتھ دم کیے جاتے۔ کچھ رکاب دار پنیر کے موتی بناتے اور ان پر چاندی کے ورق چڑھا دیتے۔ یہ بھی ہوا کہ گوشت کی چھوٹی چھوٹی چڑیاں بنا کر اس طرح پکائی گئیں کہ صورت نہ بگڑے۔ انہیں پلیٹ میں بٹھا دیا گیا۔ چاولوں کی شکل دانے جیسی کر دی گئی۔ یوں معلوم ہوتا جیسے مہمان کے سامنے پلیٹ میں چڑیاں دانہ چُگ رہی ہیں۔
کریلے دیکھنے میں کچے لگتے مگر کاٹ کر کھائے جاتے تو عجیب لذت اور ذائقہ ہوتا۔
لکھنؤ کے بعض رکابدار مسلم کریلے ایسی نفاست اور صفائی سے پکاتے تھے کہ معلوم ہوتا تھا کہ ان میں بھاپ تک نہیں لگی ہے اور بالکل ہرے اور کچے دسترخوان پر لا کر رکھے ہیں کاٹ کر کھائیے تو لذیذ اور بامزہ۔
سنا ہے جب واجد علی شاہ کلکتہ کے مٹیا برج میں مقیم تھے تو ایک انگریز کے گھر مدعو ہوئے اور انھیں انگریزی کھانے کھلائے گئے اور ہندوستانی کھانوں پر طنز کیا گيا۔ ان کا ایک رکاب دار یہ گفتگو سن رہا تھا۔ وہ مصر ہوا کہ انگریز کی دعوت کی جائے اور واجد علی شاہ بادل ناخواستہ راضی ہوئے۔ حب انگریز آیا تو رکابدار نے دسترخوان پر صرف ایک بڑا سا کدو لا کر رکھ دیا۔ انگریز کو غصہ آیا کہ اس کے ساتھ مذاق کیا جا رہا ہے۔ واجد علی شاہ نے انگریزکے ہاتھ میں چھری دی۔ جب اس نے کدو کاٹا تو حیرت زدہ رہ گیا کہ کدو کے اندر طرح طرح کے ہندوستانی کھانے سجے تھے۔
اس صدی کی دوسری دہائی میں مرزا محمد صادق علی خاں کے باورچی نے چند گھنٹوں میں 23 قسم کی کھچڑی، 32 طرز کی چٹنیاں دسترخوان پر حاضر کر دی تھیں۔دیکھتے ہی دیکھتے زمانہ ایسا بدلا کہ نہ وہ رئیس رہے اور نہ وہ ہنرمند باورچی۔
کسی نواب نے اپنے دوست کے گھر خوان بھیجا۔ جب خوان کھولا گیا تو ایک طشتری میں ایک کچا کدو رکھا تھا۔ دیکھ کر طبیعت مکدر ہو گئی۔ نوکر سے کہا۔ لے جاؤ کل پکا لینا۔ خوان لانے والا ہنس کر بولا، حضور اسے پکانے کی ضرورت نہیں یہ پکا پکایا ہے۔
بہت سے کھانوں کے مجموعے کو لکھنؤ میں تورا کہا جاتا۔ ایک تورے میں مندرجہ ذیل غذائیں لازمی طور پر ہوتیں: پلاؤ۔ متنجن، شیر مال‘ سفیدہ (میٹھے چاول بغیر رنگ کے)‘ قورمہ‘ تلی ہوئی اروی گوشت کے ساتھ‘ شامی کباب‘ کئی اقسام کے مربے، اچار اور چٹنیاں۔ اس زمانے میں لکھنؤ نے عالم‘ یا سپاہی، یا سائنس دان نہیں، صرف باورچی پیدا کیے۔ ہندوستان بھر میں لکھنؤ کے باورچیوں کی دھوم تھی۔ دکن، بھوپال، رام پور، بنگال غرض ہر جگہ باورچی لکھنؤ کے ہوتے۔ لکھنؤ والوں نے ملائی کا نام بدل کر بالائی رکھا۔ بالائی کی تہہ پر تہہ ایک خاص طریقے سے بٹھائی جاتی۔ باقر خانی بھی وہیں کی ایجاد ہے۔
کباب خانہ کے لئے یہ مضمون سید شایان نے تحریر کیا۔
سید شایان پیشے کے اعتبار سے بزنس مین ہیں اور لاہور پاکستان کے علاقے مین گلبرگ میں اپنی بزنس فرمز چلاتے ہیں کھانا پکانے کے شوقین، ماہرِ آشیز اور کھانوں کے تاریخ نویس ہیں. ان کی ایک فرم جو کباب خانہ بلاگ اور ویب سائٹ چلاتی ہے فائیو سٹارز ہوٹلز اور بڑے بار بی کیو ریسٹورنٹس کے لئے فوڈ کنسلٹنسی مہیا کرتی ہے اور مختلف food events پر کام کر رہی ہے سید شایان کھانوں سے جُڑی اشیأ جیسے مصالحے ، گوشت ، سبزی ، پھل ، ڈیریز اور گھی و آئل کے استعمال کو خوب جانتے اور سمجھتے ہیں اور آجکل کباب خانہ بلاگ اور ویب سائٹ کے لئے کھانوں کی ایک سیریز لکھ رہے ہیں
Views:256
Post a Comment
Comments