بھیّا کے کباب
تحریر : سید شایان
‘زندہ دلانِ لاہور’ سے اقتباس
غالباً 1986 کا زمانہ ہے ، ماڈل ٹاؤن کی ڈی بلاک والی مین روڈ کراس کر کے گارڈن ٹاؤن میں داخل ھوں تو شیر شاہ بلاک اور اتاتُرک بلاک گارڈن ٹاؤن کی لوکل مارکیٹ کے سامنے کارنر پر ایک مسجد بھی ہے اسی مسجد کے زیرِ سایہ ایک ریڑھی پر شام کے وقت مغرب کے فوراً بعد ایک دُبلا پتلا ، سانولے رنگ کا کلین شیوڈ ادھیڑ عمر شخص اپنی سائیکل پر آتا ، سائیکل کے پچھلے اسٹینڈ پر رکھی سٹیل کی بنی پرات اتارتا سائیکل کے ہینڈل پر دونوں طرف لٹکتے بے شمار رنگ برنگے شاپرز کو اتار کر اپنی چار پہیوں والی ریڑھی پر رکھتا اور ریڑھی پر پہلے سے رکھی انگھیٹی میں ایک شاپر سے کوئلے نکال کر انگیٹھی میں بھرتا اور ہاتھ دھو کر کوئلوں کو دہکانا شروع کر دیتا ، کوئلے دہکنے سے جب تک انگیٹھی سے دُھواں اُٹھنا شروع ہوتا اسوقت تک وہ شخص دوسرے شاپر کو کھول کر اس میں سے کچا قیمہ نکالتا ، اور پرات میں اُلٹ کر ہاتھوں سے ملنا شروع کر دیتا پھر ایک اور شاپر کھول کر اخباری کاغذ کی مختلف پُڑیاں اس میں سے نکالتا اور ایک ایک پُڑیا کھول کر اسے قیمے میں ملاتا جاتا ایک پُڑیا میں نمک ہوتا تو دوسری پڑیا میں پِسی ہوئی لال مرچ ، ایک اور پُڑیا گرم مصالحے کی ہوتی اور ایک آدھ کوئی اور ، وہ کافی دیر اپنی پرات میں قیمے کو مصالحے اور نمک مرچ ڈال کر اپنے دائیں اور کبھی بائیں ہاتھ سے ملتا جاتا اور جب اسے احساس ہوتا کہ کچے قیمے میں یہ سب مصالحہ جات جذب ہو چکے ہیں تو وہ ایک کپڑے کی پوٹلی کھول کر اس میں سے لوہے کی صاف سیخیں جو وہ گھر سے لایا ہوتا نکالتا اور پانچ چھ سیخوں پر تھوڑا تھوڑا قیمہ چڑھاتا اور اسے کباب کی شکل دیکر دہکتی انگاروں پر رکھتا تو ایسی خوشبو پیدا ہوتی کہ سڑک پر چلتے راہگیر رُک کر غور سے اسے دیکھنے پر مجبور ہو جاتے جیسے ہی ان پانچ چھ سیخوں پر چڑھے کباب تیار ہوتے یہ اپنے سامنے کھڑے لوگوں میں ایک ایک سیخ تقسیم کر کے خالص اُردو زبان میں کہتا باؤ جی ذرا چیک کریں۔ کبابوں کا نمک مرچ ٹھیک ہے یا کُچھ مزید ڈالنا ہو گا سامنے کھڑے گاہک مزے سے وہ مفت کا پہلا پہلا کباب کھاتے اور کہتے ، واہ بھئیے ، مزا آ گیا سب کُچھ پرفیکٹ ہے ، اب بھیا یہ سُن کر اپنی چھوٹی چھوٹی آنکھوں کو چاروں طرف گُھما کر سامنے کھڑے ہر گاہک کے چہرے کو غور سے دیکھتا اور اندازہ لگا لیتا کہ سب گاہک مطمئن تو ہیں نمک مرچ کے تناسب سے ، اور جب وہ یقین کر لیتا کہ سب او کے ہے تو۔ پھر وہ باقائدہ کباب لگانا شروع کرتا ۔۔ میں بھی اکثر سامنے کھڑے گاہکوں میں شامل ہوتا اور مجھے بھی ایک سیخ بھیّا لازمی دیتا تھا اور پھر انتظار کرتا کہ میں کیا تبصرہ کرتا ہوں اس کے کبابوں پر ، اور جب میں۔ بھی کہہ دیتا کہ بھئیے ، نمک مرچ سب ٹھیک ہے اب تُو مزید دیر نہ کر ، تو بس پھر بھیّا ہَوا ہو جاتا اور پھر دھڑا دھڑ سیخیں انگیٹھی پر چڑھتیں اور فوراً اترتی جاتیں ، بہت جلد یہ بات ماڈل ٹاؤن میں۔ اور گارڈن ٹاؤن میں پھیلنی شروع ہو گئی کہ مسجد کی دیوار کے ساتھ مغرب کی نماز کے بعد شام کو ایک شخص سائیکل پر آتا ہے اور گھر سے جو قیمہ لاتا ہے اس میں کُچھ خاص ایسا ہے کہ اس سے جو کباب بنتے ہیں وہ لاہور میں اس سے پہلے کسی نے نہیں کھاۓ ، میں بھی ان لوگوں میں شامل تھا کہ جو اگلے روز اپنے دوستوں اور ملنے والوں میں اس کے کبابوں کا ذکر کرتے ۔ ایک دن میں نے بھئیے سے پوچھا کہ بھئیے تُو دن میں کہاں ہوتا ہے تو ٹال گیا میں نے پھر کُچھ دن بعد پوچھا کہ بھئیے تمھارے کباب اسقدر ذائقے دار ہیں تُم اسے دن میں بھی کیوں نہیں لگاتے تو ایک روز اس نے مجھے بتایا کہ باؤ جی ، میں دن کو گارڈن ٹاؤن کلمہ چوک ٹیلیفون ایکسچینج کے محکمے میں نوکری کرتا ہوں
(مضمون جاری ہے ، اگلی قسط آئندہ)
کباب خانہ کے لئے یہ مضمون سید شایان نے تحریر کیا۔
سید شایان پیشے کے اعتبار سے بزنس مین ہیں اور لاہور پاکستان کے علاقے مین گلبرگ میں اپنی بزنس فرمز چلاتے ہیں کھانا پکانے کے شوقین، ماہرِ آشیز اور کھانوں کے تاریخ نویس ہیں. ان کی ایک فرم جو کباب خانہ بلاگ اور ویب سائٹ چلاتی ہے فائیو سٹارز ہوٹلز اور بڑے بار بی کیو ریسٹورنٹس کے لئے فوڈ کنسلٹنسی مہیا کرتی ہے اور مختلف food events پر کام کر رہی ہے سید شایان کھانوں سے جُڑی اشیأ جیسے مصالحے ، گوشت ، سبزی ، پھل ، ڈیریز اور گھی و آئل کے استعمال کو خوب جانتے اور سمجھتے ہیں اور آجکل کباب خانہ بلاگ اور ویب سائٹ کے لئے کھانوں کی ایک سیریز لکھ رہے ہیں
Views:89
Post a Comment
Comments