شامی کباب کے ساتھ مسوُر کی دال کا combo بھی خوب ہے
تحریر : سید شایان
یہ منُھ اور مسور کی دال
واجد علی شاہ کا ایک رکابدار نوابی دور کے بعد ایک رئیس کا نوکر ہوا اور ان کے لیے مسور کی دال پکائی۔ وہ دسترخوان پر رکھے سارے کھانے کو چھوڑ کر دال کھا کر انگلیاں چاٹتے رہے۔
انھوں نے رکابدار سے دال پکانے کی ترکیب پوچھی، رکاب دار نے اجزا اور ان کے اخراجات کی تفصیل بتائی۔ دال صرف تین پیسے کی اور ديگر اجزا 36 روپے کےتھے۔ رئیس چلا اٹھے۔ کہا نامعقول تین پیسے کی دال پر اتنا خرچ؟ رکابدار یہ سن کر کھڑا ہوگیا اور یہ کہتا ہوا چلا گیا یہ منھ اور مسور کی دال، یعنی تم اس قابل نہ ہو کہ یہ دال کھا سکو ۔
اس کے برعکس سلمیٰ حسین اور وجے ٹھکرال کی مشترکہ انگریزی تصنیف ’پُل آف پلسِز‘ یا ’دالوں کی کشش‘ میں تحریر ہے کہ اودھ کے ایک بادشاہ کے دربار میں ایک تباخ کو خاص طور پر دالیں پکانے کے لیے رکھا گیا تھا۔ لیکن اس شاہی باورچی کی ایک شرط تھی اور وہ یہ کہ بادشاہ سلامت اس کی بنائی ہوئی دال فوراٌ تناول کریں گے اور اسے ٹھنڈا نہیں ہونے دیں گے۔
ایک دن بادشاہ وقت پر دال نہ کھا سکا تو تباخ کو اس قدر غصہ آیا کہ اس نے دال زمین پر انڈھیل دی اور یہ کہتے ہوئے دربار سے نکل گیا ’یہ منہ اور مسور کی دال‘ یعنی یہ بادشاہ اس قابل نہیں کہ آئندہ اسے کوئی دال پیش کی جائے۔
کباب خانہ کے لئے یہ مضمون سید شایان نے تحریر کیا۔
سید شایان پیشے کے اعتبار سے بزنس مین ہیں اور لاہور پاکستان کے علاقے مین گلبرگ میں اپنی بزنس فرمز چلاتے ہیں کھانا پکانے کے شوقین، ماہرِ آشیز اور کھانوں کے تاریخ نویس ہیں. ان کی ایک فرم جو کباب خانہ بلاگ اور ویب سائٹ چلاتی ہے فائیو سٹارز ہوٹلز اور بڑے بار بی کیو ریسٹورنٹس کے لئے فوڈ کنسلٹنسی مہیا کرتی ہے اور مختلف food events پر کام کر رہی ہے سید شایان کھانوں سے جُڑی اشیأ جیسے مصالحے ، گوشت ، سبزی ، پھل ، ڈیریز اور گھی و آئل کے استعمال کو خوب جانتے اور سمجھتے ہیں اور آجکل کباب خانہ بلاگ اور ویب سائٹ کے لئے کھانوں کی ایک سیریز لکھ رہے ہیں
Views:133
Post a Comment
Comments