دہلی کے مشہور کباب فروش میاں گھمّی کا تذکرہ
تحریر : سید شایان
دہلی کے مشہور کباب فروش میاں گھمّی کا تذکرہ
اشرف صبُوحی کی ایک دلگدُاز تحریر ، جو دِلّی کی مُسلم تہذیب اور قیامِ پاکستان کے وقت تعلیم یافتہ مسلمان نوجوانوں کی روز مرّہ کالج کی زندگی کو اپنے اندر سماۓ ہوۓ ہے دلّی کی کھوئی ہوئی زبان اور آوازوں کی بازگشت اس مضمُون میں آپ کو بارہا سُنائی دے گی
یہ تحریر بار بار پڑھے جانے کے قابل ہے آپ بھی پڑھئیے اور دوست احباب سے شئیر بھی کیجئے۔(س۔ش)
گھمّی کبابی کو کون نہیں جانتا۔ سارا شہر جانتا ہے۔ جب تک یہ زندہ رہا کبابوں کی دنیا میں اس سے زیادہ دلچسپ کوئی کبابی نہ تھا۔ جامع مسجد کی سیڑھیوں سے لے کر ادھر دِلّی دروازے تک اور ادھر حبش خاں کی پھاٹک تک اس کے کباب چٹخارے لے لے کر کھائے جاتے تھے۔ چھوٹے بڑے، امیر غریب سب ہی پر میاں گھمی کے کبابوں نے سکّہ بٹھا رکھا تھا۔ دکان تو آج بھی ہے اور کباب ہی اس پر بکتے ہیں۔ لیکن وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی۔ وہ نہ گھمّی کی سی مزے دار باتیں ہیں، نہ وہ گھمّی کا سا کباب بیچنے کا ڈھنگ۔ نہ وہ خریداروں کی بھیڑ ہے۔ نہ وہ چٹپٹاپن۔ ایک لمبا تڑنگا بھینگا سا جوان آدمی دکان پر بیٹھا ہوا مکھیاں مارا کرتا ہے۔
میاں گھمّی کی صورت بھی ایسی گول مٹول تھی کہ گولے کا کباب معلوم ہوتے تھے۔ شام کو پانچ بجے کے بعد جاڑوں میں اور مغرب کی اذانوں کے قریب گرمیوں میں ان کی دکان جمتی تھی۔ سری پائے گھرسے پکاکر لاتے۔ کلیجی گردے اور بکری کے بھیجے تلے ہوئے الگ اور بھُنے ہوئے علاحدہ سینیوں اور پتیلے میں رکھے ہوئے ہوتے۔ قیمہ سیخوں پر چڑھائے جاتے اور آپ ہی آپ بڑبڑاتے رہتے۔ باتیں ایسی صاف ستھری زبان میں آواز کو جھولادے دے کر کیا کرتے کہ قلعے کی بولیوں ٹھولیوں کا لطف آجاتا۔ اب تو وہ اردو ہی سننے میں نہیں آتی۔ بولنے والے نہ رہے تو سمجھنے والے کہاں سے آئیں۔
یونی ورسٹی کے امتحانوں کے دن تھے۔ بڑی بڑی دورکا لڑکا آیا ہوا تھا۔ طالب علم پورب کے ہوں یا پچھّم کے گھنٹوں میں یار ہوجاتے ہیں۔ اردو کے پرچے کا نمبر آیا تو آپس میں چخ شروع ہوئی۔ بحث یہ تھی کہ اردو پر دلّی والوں کا حق دعوا ہے۔ دوسرے ان سے اچھی جانتے ہیں۔ گویا استادوں کو منہ چڑانے والے شاگرد بھی اللہ کی شان میاں مٹھو بننے لگے۔ یوں وہ کب ماننے والے تھے۔ کاگا رول میں میری کون سنتا۔ یکایک مجھے ایک ترکیب سوجھی اور خوب سوجھی۔
شام کو ان میں جو زیادہ شیخی بگھار رہے تھے، انھیں ساتھ لے، باتوں میں لگا اِدھر ادھر کا چکر دیتا ہوا۔ میاں گھمّی کی دکان پر جاپہنچا۔ اتفاق سے اس وقت ان کا بھی بہرہ کھلا ہوا تھا۔ کسی نے چھیڑ دیا ہوگا۔ چومکھّی چل رہی تھی۔ اور زرغل دکان کے سامنے کھڑے ہونے کا کوئی بہانہ تو ہوتا، میں نے چاندی کی ایک پاؤلی پھینکی اورچپ کھڑا ہوگیا۔ مگر گھمّی صاحب اپنے رنگ میں۔ غرض کہ ہم سب کھڑے تھے اور میاں گھمّی پنکھے کے ساتھ پتنگے اڑا رہے تھے۔ آغاز اور انجام کی تو خبر نہیں کہ کیوں کر اردوے معلیٰ کا دفتر کھلا اور کس پر آخری تان ٹوٹی۔ ہاں جتنا ہم نے سناحاضر ہے۔
خوب۔ دھوبی بیٹا چاند سا سیٹی اور پٹاخ۔ اجی وہ زمانے لد گئے جب خلیل خاں فاختہ اڑایا کرتے تھے۔ آج کی کہو۔ جس کو دیکھو بے نوا کا سونٹا بنا پھرتا ہے۔ نہ بڑوں کا ادب نہ چھوٹوں کی لاج۔ وہی مثل ہوگئی کہ باولے گانو اونٹ آیا لوگوں نے جانا پرمیشور آئے۔ حضرت ہم نے بھی دنیا دیکھی ہے۔ جھجّو جھونٹوں میں عمر نہیں گزاری۔ رانڈے کے سانڈ بن کر نہیں رہے۔ یہ بال دھوپ میں سفید نہیں ہوئے۔ کیا کہا بارہ برس دلّی میں رہے اور بھاڑ جھونکا؟
ہاں صاحب اب تو جو کہو بجا ہے۔ آنکھ پھوٹی۔ پیڑ گئی۔ دلّی کا کوئی ہو تو اس کی پیٹ میں درد اٹھے۔ کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا، بھان متی نے کنبہ جوڑا۔ پھر جیسا راجا ویسی پرجا۔ جیسی گندی سیتلا ویسے پوجن ہار۔ میری کیا پوچھتے ہو آنے کا چراغ گھر رکھوں چوہا کھائے، باہر دھروں کوّا لے جائے۔ انھیں کیوں نہیں دیکھتے جو آدھے قاضی قدوا اور آدھے بابا آدم بنے ہوئے ہیں۔ آخر کس برتے پرتتا پانی۔ کرگا چھوڑ تماشے جائے۔
ناحق چوٹ جُلایا کھائے۔ خیر بھئی ہم تو اپنی کہتے ہیں۔ زن، زر، زمین زبان قضّیہ چاروں کے گھر۔ یہاں کیا دھرا ہے؟ جس کا کام اسی کو ساجھے اور کرے تو ٹھینگا باجے۔ پہلے بادشاہی تھی اب انگریزی ہے۔ سنا نہیں کہ راجا کہے سونیا و پانسا پڑے تو دانو۔ کالوں کا چراغ بجھ گیا۔ گوروں کی رتّی چڑھی ہوئی ہے۔ خدا سے لڑو۔ حکومت اس کی جس کے ہاتھ میں تلوار۔ کہتے نہیں کہ رانی کو رانا کانی کو کانا۔ دلّی اسی قابل رہ گئی تھی۔
اچھا جناب، تجھ کو پرائی کیا پری اپنی نبیڑ تو، بقولِ ذوق۔ یار تو کباب بیچتے ہیں جس کی زبان سو دفعہ کھجائے وہ ہمارے نخرے اٹھائے۔ ہاں صاحب آپ نے چونّی دی ہے! کیا عرض کروں۔ گلزار کی ٹولی کا ایک پرانا لمڈا آگیا تھا۔ چھوٹا منہ بڑی بات۔ بھلا کہو تو گدھی گھمار کی تجھے رام سے کیا کام، پڑھے لکھوں کی سی تقریر کرنے لگا۔ میں نے جو کس کر ذرا مزے لیے تو کہاں ٹکتا، نوک دم بھاگا۔ بھُس میں چنگی ڈال جمالو دور کھڑیں، لیجیے آپ کی واری ہے۔ کباب بھی ملائی ہیں۔ جگر تک سکے ہوئے۔ آپ تو تشریف لے جائیے، مجھے نہ جانے ابھی کب تک بکواس لگی رہے گی۔
میرا تو پوچھنا ہی کیا۔ گھمّی صاحب کے کبابوں اور ان کی چٹپٹی باتوں کا عاشق تھا۔ رات بھر ہوجاتی تو بھی وہاں سے نہ ٹلتا۔ لیکن میں نے دیکھا کہ میرے ساتھی بھی اڑیل بٹّو بنے ہوئے تھے۔ دکان سے کھسکے تو لیکن اوپری دل سے۔ تھوڑی دور آگے چل کر ان میں سے ایک حضرت بولے۔
”کیوں مسٹر ان طبّاخی کا نام کیا ہے؟ “
میں۔ گھمّی! پکڑوانے کا ارادہ تو نہیں؟
دوسرے صاحب۔ کیا بات کرتے ہو، نام پوچھنے میں بھی کچھ حرج ہے؟
میں۔ میں سمجھا شاید۔
تیسرے صاحب۔ (بات کاٹ کر) یہ کچھ پڑھا لکھا بھی ہے؟
میں۔ پڑھے لکھے کی ایک کہی۔ پڑھا لکھا ہوتا تو کباب بیچتا؟
پہلے۔ اور یہ اردو میں باتیں کر رہا تھا؟
میں۔ جی نہیں زرگری میں!
دوسرے صاحب۔ زرگری بھی کوئی زبان ہے؟
تیسرے صاحب۔ زرگر بولتے ہوں گے۔
میں۔ (ہنس کر) واہ! اسی برتے پرتتّا پانی۔ یہ منہ اور مسور کی دال۔ بھائی دلّی کی اصلی بول چال یہی ہے۔
پہلے صاحب۔ اردو نہیں؟
میں۔ تم کیا سمجھے؟ سمجھوگے کیا خاک۔ تم نے، جسے اردو کہتے ہیں، پڑھی نہیں۔ لیکن اب دلّی میں ابھی اس زبان کے جاننے اور بولنے والے گنتی کے رہ گئے ہیں۔ پڑھے لکھوں میں کوئی جم ہی جم دکھائی دے گا۔
دوسرے صاحب۔ (اعتراضاً) تو یہ زبان جاہلوں کی زبان ٹھیری!
میں۔ یار تم تو اردو کے پورے رنگروٹ نکلے۔ میاں انقلاب کا اثر معاشرتی ہو یا علمی، پہلے بڑے گھرانوں، اونچے خاندانوں اور پڑھے لکھوں پر پڑا کرتا ہے۔ مدّتوں بعد کہیں ادنا طبقے والے اور جاہل متاثر ہوتے ہیں۔ دلّی کی کایا پلٹ ہوئی تو اس کی ہر چیز پر گردش آگئی۔ پردیسیوں سے میل جول بڑھا۔ مدرسوں میں نئی تعلیم کا سلسلہ جاری ہوا۔ پرانی بولیاں بولی جاتیں تو کون سمجھتا۔ سادگی اختیار کی اور رفتہ رفتہ اردو ایک نئے قالب میں ڈھل کر رہ گئی۔ پڑھے لکھے تو کتاب کے محتاج ہوتے ہیں، جیسا پڑھتے ویسا بولتے لیکن چھوٹی امت، ان پڑھ جوں کی توں اپنی جگہ قائم رہتے ہیں۔ نہ باپ دادا کے طریق ان سے چھوٹیں نہ مادری زبان۔
تیسرے صاحب۔ اچھا تو وہ اردو ہی میں باتیں کر رہے تھے؟
میں۔ ہاں اردو میں اور ٹھیٹ اردو میں۔ تمھاری سمجھ میں نہ آئے تو اس کا کیا علاج؟
پہلے صاحب۔ اگر یہ اردو تھی تو ہماری سمجھ میں نہ آنے کی وجہ۔
میں۔ وجہ یہ کہ تم جو اردو پڑھتے ہو وہ دلی والوں کی اردو نہیں، انگریزی دانوں کی اردو ہے۔ جو کتابیں مدرسوں میں پڑھائی جاتی ہیں ان کا معیار کچھ اور ہے۔ ایک جاہل کبابی کو دیکھ لیا، کس صفائی کے ساتھ کیسا بے تکان محاورے پر محاورے اور ضرب المثل پر ضرب المثل بولتا چلا جا رہا تھا۔
نسیم دہلوی ہم موجد بابِ فصاحت ہیں
کوئی اردو کو کیا سمجھے گا جیسا ہم سمجھتے ہیں
گھمّی، ایک کبابی کی بدولت دلی کی لاج رہ گئی۔ لیکن افسوس اب ایسا بھی کوئی نہیں۔ لاگ آپڑے تو کہاں جائیں؟ مٹر مٹر سناکرتے ہیں کہ دلّی والے بے ہنر، بے غیرت، جھوٹے، شیخی باز، یہاں کے باورچیوں کو کھانا پکانا نہیں آتا۔ یہاں کے حلوائی مٹھائی بنانی نہیں جانتے۔ نہاری جس کی اتنی تعریف ہے، کباب جس پر رال ٹپکائے دیتے ہیں، گھلی ہوئی مرچوں اور جلے ہوئے گوشت کے سوا کیا رکھا ہے۔ کیا جواب دیں۔ ”نہ ایسے ہوتے نہ تم پرمرتے“ رات گئی بات گئی۔ جو کوئی اور جو کچھ کہے سچ ہے۔
کوئی فن ہو اصل میں قدردانی کی گود میں پرورش پاتا ہے۔ قلعہ آباد تھا۔ امرا کی ڈیوڑھیاں برقرار تھیں۔ ملک گیری اور ملک داری والے تو خُلد آشیاں اور جنّت مکاں ہوچکے تھے۔ رہ گئی تھی صرف شاہی اور امارت کی باتیں، بازیاں عیّاشیاں اور کھانا اڑانا خالی بیٹھے کیا کرتے۔ لباس کی تراش خراش ہوتی یا دسترخوان کی زیبائش۔ درزی اپنی کاری گری دکھاتے، باورچی، نان بائی، رکاب دار طرح طرح کی استادیوں سے کھانے کے اقسام بڑھاتے، انعام پاتے۔
بادشاہت اجڑی۔ اہلِ کمال دربدر کی ٹھوکریں کھاکر بازاروں میں نکلے۔ پیٹ بُری بلاہے۔ کیسی آن اور کس کی شان؟ کوئی کبابی بن گیا۔ کسی نے نہاری کی دکان کرلی۔ اس طرح اکثر خاص کھانے جو سچّی چینی کے پیالوں اور بلوّری قابوں میں تورہ پوشوں سے ڈھکے ہوئے شاہ زادوں اور شہزادیوں کے سامنے آتے تھے، ٹھاک کے پتّوں کے دونوں اور مٹی کے جھوجرے برتنوں میں نکلنے لگے۔ عوام الناس کا بھلا ضرور ہوا مگر فن کی ترقی رک گئی۔ جومرا اپنا فن اپنے ساتھ لے گیا، کسی نے اپنا جانشین نہ چھوڑا۔
دلّی کے اکثر دکان داروں میں یہ بات پہلے بھی تھی اور اب بھی ہے کہ وہ گاہکوں کے نمبر کا خیال رکھتے ہیں۔ وار سے سودا دیتے ہیں تاہم خریدار کی مطالبت اور خریداری کی نوعیت سے ان کا یہ قاعدہ ٹوٹ بھی جاتا ہے۔ لیکن گھمّی اس اصول کا بڑا مضبوطی سے پابند تھا۔ اس کی نگاہ میں ایک پیسے اور ایک روپے کے کباب لینے والا برابر تھا۔ اب اس کو کوئی بُرا کہے یا اچھا۔ اس کے اس طریق کی کوئی مذمت کرے یا تعریف۔ وہ بڑے سے بڑے موٹر میں بیٹھ کر آنے والے کی پروا نہیں کرتا تھا۔
ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور کانوں سے سنا ہے کہ ”میاں ایسی جلدی ہے تو کہیں اور سے لے لو، میں تو نمبروں سے دوں گا۔ “ باوجود اس کے کہ میں اس کا لگا بندھا گاہک تھا، اس کو میری خاطر بھی منظور تھی۔ مجھے وہ خاص طور پر زیادہ دہی لگاکر دھیمی آگ پر سنکے ہوئے کباب دیا کرتا تھا۔ لیکن یہ کبھی نہیں ہوا کہ نمبر کے خلاف دیے ہوں۔ ذرا جلدی کی اور اس نے تیوری چڑھاکر کہہ دیا کہ ”حضرت گھمّی کو اپنی جنٹلمینی سے نہ دبائیے۔ آپ سے پہلے کا یہ لونڈا کھڑا ہے، اس کی سیخ سینک دوں پھر آپ کا وار ہے۔ دیکھیے یہ آپ کے واسطے لگارکھی ہے۔ “
گھمّی کی اس مستقل عادت سے دوچار دفعہ ہمیں تکلیف بھی ہوئی اور برا بھی معلوم ہوا لیکن ایمان کی بات ہے کہ اس جاہل کبابی میں یہ خصلت ایسی تھی کہ ہزاروں پڑھوں لکھوں میں نہیں ہوتی۔ مساوات کا سبق میں نے اسی دکان پر پڑھا تھا۔ حالاں کہ اِن حضرت کی اس حق شناسی کی بدولت جس میں کوئی استثنا ہی نہ تھا، ایک مرتبہ مجھ کو سخت خفّت، پریشانی اور بے حد ذلّت اٹھانی پڑی۔ اس واقعے کے بعد وہ مرگیا اور مجھے مرنا ہے۔ آج تک میں پچھتاتا ہوں۔ اور اپنی اجتہادی حماقت اور گھمّی کی جہالت آمیز عمل نمبری پر ماتم کرتا ہوں۔
علی گڑھ سے کرکٹ کی ٹیم آئی ہوئی تھی۔ میرے چند کھلاڑی دوستوں نے اس کی دعوت کردی۔ اس دعوت کی انتظامی مجلس کا میں بھی ایک رکن تھا۔ کھانوں کی فہرست تیار ہوئی۔ شامتِ اعمال میرے منہ سے نکل گیا کہ گھمّی کے کباب بھی ہونے چاہئیں۔ تھوڑے بحث و مباحثے کے بعد میری رائے پاس ہوگئی۔ مگر ساتھ ہی اس پر زور دیا گیا کہ جہاں کھلایا جائے وہیں میاں گھمّی کباب لگائیں تاکہ گرماگرم ہوں۔ ادھر اتریں اور ادھر دسترخوان پر آئیں۔ اور اس کا انتظام مجھ بدنصیب کو سونپا گیا۔ میں خوش تھا کہ مفت میں گھمّی پر احسان ہوگا اور علی گڑھ والے بھی کیا یاد کریں گے کہ دلّی کی دعوت وہ دعوت کھلائی جو کھانے والے کو سرسے پانوتک جنّتی بنادیتی ہے اور جس کے پہلے ہی نوالے میں خضوع و خشوع شروع ہوجاتا ہے۔
خوشی خوشی میاں گھمّی کی دکان پر پہنچا۔ وہ ابھی آئے نہ تھے۔ ایک لڑکا ان کا ٹھیا صاف کر رہا تھا۔ اتنے میں وہ بھی لنگی باندھے تہبند سے اونچا بنیان پہنے بڑے ٹھسّے سے تشریف لائے۔ سرپر پتیلا، بغل میں روٹیاں، دونوں ہاتھوں میں دوپوٹ۔ سامان رکھتے رکھتے بہت کچھ تصنیف کرڈالا۔ جب ذراہلکے ہوئے تو مجھ سے پوچھا میاں آج اس وقت کہاں۔ سیخیں تو گھنٹہ بھر میں تیار ہوں گی۔ مگر وار پہلا تمہارا ہوگا، میں نے کہا۔ اس وقت تو میں کباب لینے نہیں آیا ہوں تمہارے لیے ایک کام لایا ہوں۔
بولے میاں میں کس کام کا ہوں، کباب بیچتا ہوں اور پیٹ بھرتا ہوں۔ اور یہ فقرہ کچھ ایسے انداز سے کہا کہ مجھ کو خیال آیا کہ کہیں کم بخت انکار کردے تو سارا مزہ ہی کِرکِرا ہوجائے۔ ڈرتے ڈرتے کہا کہ بھئی ایک دعوت ہے اور اس میں تمہارے کبابوں کی ضرورت۔ علی گڑھ تک نام ہوجائے گا۔ جواب دیا کہ ”کباب جتنے چاہئیں لیجیے، اور ایسے مزے کے لیجیے کہ کھانے والے انگلیاں چاٹتے رہ جائیں۔ “ میں نے کہا ”مگر ایک شرط ہے۔ دعوت کی جگہ چل کر تیار کرنے پڑیں گے“ کہنے لگے میاں یہ جھگڑے کی بات ہے۔ گھمّی سے یہ نہیں ہوسکتا کہ کسی کے دروازے پر جائے۔ یہیں سے لے جائیے گا۔ ”
اس جملے میں ایسی اکڑتھی۔ میں گھبرا گیا اور زور دیتے ہوئے کہا“ لو اور سنو! میں تو اپنے دوستوں سے وعدہ کر آیا ہوں۔ اپنے دلّی والے کی اتنی لاج بھی نہیں۔ ”یہ سُن کر میاں گھمّی کچھ پسیجے۔ اب دکان پر چند کبابوں کے رسیا بھی آگئے تھے۔ کہنے لگے تم گھمّی کی آن توڑتے ہو۔ خیر۔ گھمّی نے تو آج تک دوسرا در دیکھا نہیں۔ کبھی اس ٹھیے سے اٹھ کر کہیں گیا ہو تو کلمے کی مار پڑے۔
مگر اب تم سے کیا کہوں۔ اچھا۔ مگر یہ بیچارے کس کی جان کو روئیں گے۔ یہ غریب جو کباب لینے کو آئیں گے تو کیا کہیں گے۔ وقت کون سا ہوگا؟ ”دعوت رات کی تھی اور دعوتوں کا عام طور پر یہی وقت ہوتا ہے۔ میں نے کہہ دیا رات کا وقت ہوگا۔ لیکن تم کو دن سے آنا پڑے گا۔ یہ سُن کر میاں گھمّی کو پھر جلال آگیا۔ بولے“ حضرت اگر مجھ پر ایسا ظلم کرنا ہے تو دوپہر کا وقت مقرر کرو وہاں سے فراغت پاکر میں اپنی دکان تو لگاسکوں گا۔ نہیں تو میرا سلام ہے۔ اس سے زیادہ میں آپ کی مروّت نہیں کرسکتا۔ ”
دسترخوان پر پر گھمّی کے کباب نہ ہوں اور میری بات میں فرق آئے۔ اس سے یہ آسان تھا کہ دعوت کا وقت بدل دیا جائے۔ چنانچہ اپنی ترکیب سے یاروں کو سمجھا دیا۔ اگر چہ نفسیات اور فلسفے کا سارا زور لگانا پڑا۔ دعوت دن کے گیارہ بجے قرار پائی اور اس کی میاں گھمّی کو بھی اطلاع دے دی گئی اور یہ بھی بتادیا کہ اتنے آدمی کھانا کھائیں گے اور سب کے سب تقریباً نوجوان انگریزی فیشن اور انگریزی مذاق کے ہوں گے جس کے جواب میں گھمّی نے عارفانہ لہجے میں صرف یہ کہا ”اللہ مالک ہے۔ اسی نے اب تک تو گھمّی کی آبرو رکھی ہے۔ “
دعوت ایک قدیم وضع کے مکان میں ہے۔ صدر دالان میں دسترخوان بچھانے کا انتظام ہے۔ صحن چبوترے سے نیچے ایک سہ دری میں میاں گھمّی ٹاٹ کے ایک ٹکڑے پر پھسکڑا مارے تشریف فرما ہیں۔ تسلے میں مسالا ملا ہوا قیمہ۔ زانوؤں کے قریب سیخوں کا ڈھیر، مٹی کے کونڈے میں پیاز کالچھا۔ باریک کتری ہوئی ادرک ہری مرچیں، لیموں اور پودینہ رکھا ہوا ہے۔ کوئلے سلگ رہے ہیں۔ پنکھا چل رہا تھا۔ میں صبح سے موجود تھا اور ہر دس منٹ بعد میاں گھمّی کو جھانک آتا تھا۔
نوبجے کے بعد جب دعوت کے دوسرے منتظم آئے اور انھوں نے کہا کہ سارے کھانے تیار ہیں۔ تنور بھی گرم ہے۔ مہمانوں کے آتے ہی باقرخانیاں لگنی شروع ہوجائیں گی تو مجھے بھی کبابوں کی تیاری کا فکر ہوا۔ جاکر کیا دیکھتاہوں کہ ابھی نہ پورے کوئلے دہکے ہیں نہ قیمے نے کبابوں کی شکل اختیار کی۔ میاں گھمّی بڑے آرام سے بیٹھے قیمے کو دہی ڈال ڈال کر متھ رہے ہیں۔ دوچار منٹ تو میں سیر دیکھتا رہا۔ آخر اکتاکر پوچھا۔
”میاں گھمّی! یہ کیا کر رہے ہو؟ ابھی تو سیخیں یوں ہی پڑی ہیں۔ کباب کب تیار ہوں گے؟ دیکھو دس بجنے کو ہیں اور ٹھیک گیارہ بجے دسترخوان بچھ جانا چاہیے۔ “
گھمّی۔ میاں میں نہ خالی بیٹھا ہوں نہ کھیل رہا ہوں۔ کام اپنے رستے سے ہواکرتا ہے۔ قیمے کو ذرا درست کرلوں تو سیخوں کو لوں۔ اتنے میں کوئلوں کا تاؤ بھی ٹھیک ہوجائے گا۔
میں۔ لیکن ہمارے پاس تو صرف چالیس پچاس ہی منٹ ہیں اور تمھارے کام میں ابھی بہت دیر معلوم ہوتی ہے۔ دوسرے کھانے کبھی کے تیار ہوچکے۔
گھمّی۔ میاں ان کا اور کام ہے اور میرا اور کام۔ یہ گھمّی کے کباب ہیں۔ آخر جب سے آیا ہوں اسی میں لگا ہوا ہوں۔ آپ گھبرائیں نہیں اللہ مالک ہے۔
میں۔ اللہ تو مالک ہے مگر خدا کے بندے تم نے یہ اوپر کا کام بھی پہلے نہ کرلیا۔ اب کوئی دم میں مہمان آنے شروع ہوجائیں گے۔ وقت کی پابندی بہت ضروری ہے۔
گھمّی۔ آپ میرے ہاتھ پاؤں نہ پھلائیے۔ میں وقت کو دیکھوں یا اپنے کام کو دیکھوں۔ یہ تو مجھ سے کبھی ہوگا نہیں کہ آپ کی ٹیم کی وجہ سے کباب کو خراب کردوں۔
میں۔ بھئی تم آج مجھ کو بغیر ذلیل کیے نہیں رہوگے۔ خدا کے واسطے کچھ تو پھرتی کرو۔ تو بس قیمے سے کشتی لڑچکے۔ آگ بھی خوب دہک گئی ہے۔ سیخیں لگانی شروع کردو۔
گھمّی۔ اسی لیے تو پرائی تابعداری نہیں کرتا۔ بڑے بڑے نوابوں نے بلایا۔ نہیں گیا۔ دنیا کے انعام کا لالچ دیا لیکن میں نے دوسروں کی حکومت اٹھانے سے اپنی حالت کو اچھا سمجھا۔ پھٹے حالوں رہتا ہوں۔ بلاسے کسی کا نوکر تو نہیں۔ غلامی تو نہیں کرنی پڑتی۔
میں۔ تم کس کے نوکر ہو۔ اس وقت تو ہم تمھارے نوکر ہیں۔ صرف یہ عرض ہے کہ ہماری دعوت پھیکی نہ رہ جائے۔
گھمّی۔ اللہ نہ کرے، پھیکی کیسی اتنی چٹ پٹی ہو کہ عمر بھر یاد رہے۔ اچھا آپ تشریف لے جائیں اور پورے آدھے گھنٹے بعد کباب لینے شروع کردیں۔
یہ کہہ کر میاں گھمّی نے ہاتھ کسی قدر تیزی سے چلائے اور دیکھتے ہی دیکھتے ساری سیخوں پر قیمہ چڑھا کر تاگے لپٹ ڈالے۔ ایک سیخ سے کوئلوں کی سطح کو برابر کیا۔ اینٹیں جو کوئلوں کے دونوں طرف سیخیں لگانے کے لیے رکھی تھیں ان کو دیکھا اور برابر برابر تمام سیخیں لگادیں۔ پنکھا چلانے والے چھوکرے کو حکم دیا، اے ذرا دباکر ہاتھ چلا۔
گیارہ بجنے میں دس منٹ تھے کہ مہمان آپہنچے۔ کالج کے طلبہ عموماً آزاد اور بے تکلف ہوتے ہیں۔ آتے ہی انھوں نے کھانا مانگا۔ مہمان میزبان، طفیلی اور تف طفیلی سب ملاکر کوئی پچاس آدمی تھے۔ دسترخوان بچھا۔ خالی رکابیاں رکھی گئیں۔ قابوں میں کھانا نکل نکل کر آنے لگا۔ نان بائی نے باقر خانیاں لگانی شروع کردیں۔ مجھ کو اپنے کبابوں کا اندیشہ تھا۔ لپکا ہوا میاں گھمّی کے پاس پہنچا۔ انھوں نے مجھے دیکھتے ہی کہا۔
حضرت یہ چالیس سیخیں تو تیار ہیں۔ کھانا شروع کردیجیے۔ کھلانا شروع کردیجیے۔ خدانے چاہا تو اب تار نہیں ٹوٹنے پائے گا۔ یہ سن کر میں نے دیکھا تو حقیقت میں آٹھ نو رکابیاں کبابوں سے بھری رکھی تھیں اور ان پر نہایت خوبصورتی کے ساتھ پیاز کا لچھا، ادرک کی ہوائی، ہری مرچیں اور کترا ہوا پودینہ چھڑکا ہوا تھا۔ خوشی کی گھبراہٹ میں کہیں یہ پوچھ بیٹھا کہ بھئی کبابوں کے تاگے بھی نکال دیے ہیں۔ ”یہ کہنا تھا کہ میاں گھمّی آئیں تو جائیں کہاں۔
جان کو آگئے۔ ”میاں تم نے مجھے کیا کوئی گنوار سمجھا ہے۔ میں نے کوئی گھامڑوں میں عمر گزاری ہے۔ واہ صاحب واہ، اچھی قدردانی کی، کیا کہنے آپ کی سمجھ کے۔ میاں دلّی رہ کر بھاڑ نہیں جھونکا ہے۔ کباب بیچے ہیں کباب اور وہ بھی جامع مسجد تلے جہاں ایک سے ایک تانا شاہی مزاج کا آدمی آتا ہے۔ بڑے سے بڑے اور اچھے سے اچھے لوگوں کو بھگتا ہے۔ خوب حضرت خوب کیا بغیر تاگے نکالے کابیوں میں لگادیتا۔ ہت تیری قسمت کی ایسی تیسی۔ نہیں میاں یہ وقت کی خوبی ہے۔ گھمّی چالیس برس کا کبابی اور اس سے پوچھا جاتا ہے کہ کبابوں میں سے تاگے نکال دیے۔ اچھا میاں اچھا۔ “
میاں گھمّی بڑبڑاتے رہے اور میں نے آکر نوکروں کو بھیج دیا کہ کبابوں کی رکابیاں اٹھالائیں اور دسترخوان پر چن دیں۔ کھانا شروع ہوا۔ کم بختی جو آئی میں نے میاں گھمّی کی تعریف اور کھانوں میں سب سے پہلے کباب پیش کیے۔ کچھ تو کباب کے ذائقے نے سارے کھانوں کا منھ ماردیا، جس نے اس کا ایک لقمہ کھالیا اس نے دوسرے کسی کھانے کو ہاتھ نہیں لگایا۔ چند منٹ نہ گزرے تھے کہ کبابوں کی ساری پلیٹیں صاف۔ اتنے میں پچیس تیس سیخیں اور تیار ہوگئیں تھیں وہ آئیں اور تکاّبوٹی ہوگئیں۔
اب تو یہ عالم ہوگیا کہ ادھر کباب آئے اور ادھر غائب۔ آنے میں دیر ہوئی تو پھبتیاں کسی جائیں۔ یہ مہذّب شہدے تعلیم یافتہ لُنگارے کسی کے روکے کب رکے تھے اٹھ اٹھ کر دوڑنے لگے۔ جو جاتا تھا میاں گھمّی سے کباب لے آتا تھا اور دسترخوان پر آتے ہی چھینا جھپٹی ہوتی تھی۔ جب معاملہ اس سے بھی گزرگیا اور کباب تیار نہ ملے تو جو جاتا میاں گھمّی اس سے کہہ دیتے ”حضرت رکابی چھوڑ جائے کباب سک جائیں تو آکر لے جائیے گا۔
” رکابیاں چھوڑ دی گئیں اور انتظار ہونے لگا۔ اب ایک جاتا“ میاں گھمّی کباب لاؤ۔ جواب ملتا ہے آپ کا ابھی نمبر نہیں۔ وہ لمبے سے عینک لگائے کھڑے ہیں، پہلے پلیٹ ان کی آئی ہے۔ دوسرا آتا ہے ”لاؤ بھئی ہمیں تو دو“، ”ارے میاں میں وار سے دوں گا۔ “ نمبر وار سنتے سنتے آخر جل گئے۔ سعید صاحب جو اس ساری پارٹی کے سرغنہ اور پورے جلاتن تھے بگڑ گئے مجھ سے کہنے لگے ”اشرف! یہ تمھارا کبابی آدمی ہے یا پیسے والا ٹرو۔ نمبر واردوں گا، نمبر واردوں گا کی رٹ لگارکھی ہے۔ کہیں میں چانٹا نہ مار بیٹھوں۔ ”
یہ سننا تھا کہ گھمّی کے تن بدن میں مرچیں لگ گئیں۔ غُلّہ سی آنکھیں نکال کر بولے۔ گھمّی کو چانٹا مارنے والا تو آج تک پیدا ہوا ہی نہیں۔ یہ سیتچہ بھی دیکھا ہے۔ آدمی کا پیٹ پھاڑ دیتاہے۔ تم جیسے انگریزوں کی بیٹ چاٹنے والے ہزاروں دیکھ ڈالے ہوں گے۔ ولایت والوں کی اترنیں کیا پہننے کو مل گئیں کہ اترا ہی گئے۔ ارے ذرا ان کنگلوں کی صورتیں تو کوئی دیکھے۔ پھر غصّے سے میری طرف مخاطب ہوئے۔ آپ نے یہ بہروپئے کہاں سے پکڑلائے ہیں۔ ایسے لٹیرے مہمان تو ہم نے کہیں دیکھے نہ سنے۔ کیوں جی ایسے ہی جنٹل مین ہوتے ہیں۔ “
ادھر میاں گھمّی پر بکواس کا دورہ پڑا ہوا تھا۔ ادھر بعض نوجوان بھی بگڑچلے۔ میں ڈرا کہیں گھمّی پر حملہ نہ ہوجائے اور وہ اپنی پھوہڑزبان کی پاداش میں واقعی پٹنے نہ لگے۔ ہنستا ہوا چہرہ بناکر ایک مصنوعی قہقہہ لگایا اور گھمّی سے کہا۔ ”واہ لونڈوں کے جھانسے میں آگئے۔ یہ تو تمھاری زبان کی بانگی دیکھتے تھے۔ لو چلو۔ اپنی بانی ختم کرو۔ کب تک ٹیسو اڑا رہے گا۔ جن جن صاحبوں کی رکابیاں رکھی ہیں۔ انھیں کباب دو۔ تم نے کباب ہی ایسے بنائے ہیں کہ منہ سے لگ کر چھوٹتے ہی نہیں۔ ”میری اس تقریر کا بھی ان پر کوئی اثر نہ ہوا بلکہ اور زیادہ سخت لہجے میں بولے۔ کس نے منع کیا ہے۔ نمبر وار آئیں اور لے جائیں۔ بے نمبر تو میں لاٹ صاحب کو بھی دینے والا نہیں، یہ کس کھیت کی مولی ہیں۔ رفع شر کی غرض سے میں نے کسی قدر لجاحت سے کہا میاں گھمّی یہ تمھاری دکان تو نہیں ہے جہاں تم نے نمبر کی شرط لگارکھی ہے۔ یہ تو ہمارا مکان ہے یہاں پہلے اور پیچھے آنے والے کا کیا سوال۔ یہ گاہک تو نہیں کہ برامانیں گے۔ آؤ غصے کو تھوک دو اور کباب دو۔ لیکن گھمّی ہیں کہ اپنی ضد سے ایک انچ ہٹنا نہیں چاہتے۔ جواب دیا۔ میاں مکان ہودکان ہو یا آسمان ہو اپنی عادت کیوں بگاڑوں۔ پرائے شگون کے لیے ناک کٹوانا مجھے نہیں آتا۔ اگر آپ کو ان کی ایسی ہی خاطر منظور ہے تو آئیے بسم اللہ کباب لگائیے اور جس طرح جی چاہے دیجیے۔ گھمّی تو اپنے ہاتھ سے دے گا، نمبر وار ہی دے گا۔ یہ کہتے کہتے میاں گھمّی کھڑے ہوگئے۔
اور تولیہ کندھے پر ڈال چلے۔ میں نے ہر چند سمجھایا، پھسلایا۔ ٹھوڑیوں میں ہاتھ دیے لیکن ان پر بھوت سوار ہوگیا تھا۔ ادھر یہ خیال کہ دعوت میں کھنڈت پڑہی چکی ہے۔ خدا نہ خواستہ کوئی اور حرکت نہ ہوجائے۔ حماقت کی شرارت سے ٹکر ہوئی تو غضب ہی ہوجائے گا۔ اس لیے گھمّی کو جانے دیا۔ لوگوں نے دور تک انھیں شور مچاتے سنا۔ گویا ریل کا انجن تھا کہ اکیلا دھواں چھوڑتا چیختا چلاجاتا ہے۔ اور میں دل ہی دل میں اپنے اوپر ملامت کرتا رہا۔ آج بھی جب کبھی یہ واقعہ یاد آجاتا ہے تو اپنی بیوقوفی کا اعتراف کرنا پڑتا ہے۔
کباب خانہ کے لئے یہ مضمون سید شایان نے تحریر کیا۔
سید شایان پیشے کے اعتبار سے بزنس مین ہیں اور لاہور پاکستان کے علاقے مین گلبرگ میں اپنی بزنس فرمز چلاتے ہیں کھانا پکانے کے شوقین، ماہرِ آشیز اور کھانوں کے تاریخ نویس ہیں. ان کی ایک فرم جو کباب خانہ بلاگ اور ویب سائٹ چلاتی ہے فائیو سٹارز ہوٹلز اور بڑے بار بی کیو ریسٹورنٹس کے لئے فوڈ کنسلٹنسی مہیا کرتی ہے اور مختلف food events پر کام کر رہی ہے سید شایان کھانوں سے جُڑی اشیأ جیسے مصالحے ، گوشت ، سبزی ، پھل ، ڈیریز اور گھی و آئل کے استعمال کو خوب جانتے اور سمجھتے ہیں اور آجکل کباب خانہ بلاگ اور ویب سائٹ کے لئے کھانوں کی ایک سیریز لکھ رہے ہیں
Views:129
Post a Comment
Comments